بغداد (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کے دارالحکومت بغداد میں کل اتوار کے روز ہونے والے مظاہروں کے بعد کئی علاقوں میں بجلی بند کردی گئی ہے۔ دوسری طرف ملک کے تمام شہروں میں سیکیورٹی مزید ہائی الرٹ کردی گئی ہے۔
” بغداد میں نامہ نگار کے مطابق اتوار کی شام کو دارالحکومت بغداد کے علاقے تحریر اسکوائر اور مرکزی کالونیوں میں بجلی بند کردی گئی ہے۔
اس سے پہلے ہزاروں یونیورسٹی طلباء نے بغداد میں تحریر اسکوائر میں جلوس نکالا۔ ویڈیو فوٹیج میں عراقی دارالحکومت کے مرکز کی طرف جانے والے متعدد طلبا کارکنوں کو دکھایا گیا ہے۔ اتواار کی صبح سے ہی پولیس اور مظاہرین کے درمیان جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔ بغداد میں رات گئے ہونے والے مظاہروں میں ایک شخص ہلاک اور درجنوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔
اتوار کو الرشید اسٹریٹ پر جھڑپیں اس وقت شروع ہوئیں جب سیکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو مرکزی بنک جانے والی سڑک پر آگے جانے سے روکنے کے لیے ان گولیاں چلائیں اور آنسوگیس کی شیلنگ کی۔ اس کے نتیجے میں کم سےکم 15 افراد زخمی ہوگئے۔
اتوار کے روز بغداد میں آپریشنل کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل قیس المحمداوی نے ایک بیان میں مظاہرین کا ایک گروہ مرکزی بنک، دیگر اہم اہداف تک پہنچنے ، دکانوں اور سرکاری و نجی املاک کو نذر آتش کرنےدستی بموں سے سکیورٹی فورسز کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ پرامن مظاہرین نہیں ہیں، لہذا ان کے ساتھ سخت قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں احتجاج پرامن ہے وہاں 20 دن سے پولیس اور مظاہرین کےدرمیان کسی قسم کا کوئی تصادم نہیں ہوا ہے۔
جنوبی صوبہ بصرہ میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے آج سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ بصرہ شہر کے نزدیک واقع بندرگاہ اُم قصر میں سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں میں سات مظاہرین ہلاک اور کم سے کم ایک سو زخمی ہوئے ہیں۔ سیکڑوں مظاہرین نے اُم قصر بندر گاہ کی طرف جانے والے راستے کو بند کررکھا تھا۔ سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے کے لیے ایک مرتبہ پھر براہ راست فائرنگ کی ہے۔
عراق اس بندرگاہ کے ذریعے تیل برآمد کرتا اور غذائی اجناس کو درآمد کرتا ہے۔عراقی حکام کا کہنا ہے کہ مظاہرین کے احتجاج کے باوجود بندرگاہ پر معمول کی سرگرمیاں معطل نہیں ہوئی ہیں اور ٹرک بندرگاہ میں داخل ہورہے تھے۔
دارالحکومت بغداد میں شاہراہ رشید پر سکیورٹی فورسز نے احتجاجی ریلی کے شرکاء کو منتشر کرنے کے لیے فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں دو افراد ہلاک ہوگئے۔ مظاہرین عراق کے مرکزی بنک کی جانے والی شاہراہ کی طرف جانا چاہتے تھے لیکن سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے ہیں اور براہ راست فائرنگ کی ہے۔پولیس اور طبی ذرائع کے مطابق فائرنگ سے پندرہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
عراقی نیوز ایجنسی کے مطابق جنوبی شہر نجف ، بصرہ اور دوسرے علاقوں میں مظاہرین نے متعدد شاہراہوں اور پلوں کو بند کررکھا ہے۔بصرہ میں مظاہرین سرکاری ملازمین کو دفاتر میں جانے سے روک رہے تھے۔پولیس اور طبّی ذرائع کے مطابق سکیورٹی فورسز نے ہفتے کی شب اور اتوار کو بھی جنوبی صوبہ ناصریہ میں مظاہرین پر فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں چار افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔
مظاہرین ناصریہ میں دریائے فرات پر تین پلوں پر جمع ہوکر حکومت کے خلاف ٹائر جلا کر احتجاج کررہے تھے۔ سکیورٹی فورسز نے انھیں منتشر کرنے کے لیے اشک آور گیس کے گولے پھینکے اور براہ راست گولیاں چلائی تھیں جس سے پچاس سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔
ناصریہ میں اسکول اور بیشتر سرکاری اداروں کی جانب جانے والے راستوں کو مظاہرین نے بند کررکھا ہے۔ طبی ذرائع کے مطابق شہر کے وسط میں واقع ایک اسپتال میں مریض اشک آور گیس سے متاثر ہوئے ہیں اور اسپتال کی انتظامیہ نے وہاں سے نومولود بچوں کو ان کے تحفظ کے پیش نظر کہیں اور منتقل کردیا ہے۔
جنوبی شہر کربلا میں بھی عراقی سکیورٹی فورسز نے فائرنگ کرکے چوبیس افراد کو زخمی کردیا ۔سکیورٹی فورسز نے مظاہرین کو مقامی حکومت کے دفاتر جانے سے روکنے کے لیے فائرنگ کی تھی۔جنوبی شہروں دیوانیہ ، الکوت ، عمارہ اورنجف سے بھی پُرتشدد مظاہروں کی اطلاعات ملی ہیں اور ان شہروں بیشتر اسکول اور سرکاری دفاتر بند تھے۔دیوانیہ اور نجف میں سکیورٹی فورسز کی فائرنگ سے دو افراد مارے گئے ہیں۔
بغداد اور عراق کے جنوبی شہروں میں یکم اکتوبر سے حکومت مخالف پُرتشدد احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور جھڑپوں میں 340 سے زیادہ افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔عراقی سکیورٹی فورسز کے اہلکاراحتجاجی ریلیوں میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست گولیاں چلاتے ہیں جس سے اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔
عراق کی سرکاری خبررساں ایجنسی نے وزیر صحت کے حوالے سے بتایا ہے کہ پُرتشدد ہنگاموں میں مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں سمیت 111 افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن یہ نہیں بتایا ہے کہ یہ ہلاکتیں کتنے عرصہ میں ہوئی ہیں۔حالیہ احتجاجی تحریک کے دوران میں 25 اکتوبر کے بعد ہلاکتوں کے یہ پہلے سرکاری اعداد وشمار ہیں۔