تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے تہران میں طالبان رہنماؤں کے ایک اعلیٰ وفد سے ملاقات کی ہے۔ اس وفد کی سربراہی ملا عبدالغنی برادر کر رہے تھے۔ حالیہ کچھ عرصے میں طالبان رہنماؤں کا ایران کا یہ دوسرا دورہ تھا۔
افغان طالبان کے ایک ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف اور طالبان رہنماؤں کے مابین یہ ملاقات بدھ اور منگل کی درمیانی شب ہوئی۔ ایران کی تسنیم نیوز ایجنسی کے مطابق ستمبر میں طالبان اور امریکا کے مابین امن مذاکرات ناکام ہونے کے بعد طالبان کا ایران کا یہ دوسرا اہم دورہ تھا۔
ایرانی نیوز ایجنسی ایرنا نے لکھا ہے کہ جواد ظریف نے طالبان اور افغان حکومت کے درمیان براہ راست مذاکرات کی حمایت کی ہے۔ طالبان ابھی تک کابل حکومت سے براہ راست مذاکرات سے انکار کرتے آئے ہیں۔ طالبان کا کہنا ہے کہ اشرف غنی حکومت امریکا کی کٹھ پتلی حکومت ہے۔
اطلاعات کے مطابق گزشتہ شب ہونے والی ملاقات میں ایران نے افغانستان سے امریکی فوجیوں کے انخلاء کی ضرورت پر بھی زور دیا۔ ایرانی وزارت خارجہ ماضی میں یہ بیان دے چکی ہے کہ طالبان کے ساتھ ایسی ملاقاتیں کابل حکومت کے ساتھ مشاورت کے بعد کی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب طالبان امریکا کے ساتھ ممکنہ امن معاہدے کے سلسلے میں پڑوسی ملکوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔
گزشتہ ہفتے طالبان نے قیدیوں کا تبادلہ کرتے ہوئے ایک امریکی اور ایک آسٹریلوی پروفیسر کو بھی رہا کر دیا تھا۔ اس کے بعد امید پیدا ہوئی تھی کہ امریکا اور طالبان کے مابین امن مذاکرات ایک مرتبہ پھر شروع ہو سکتے ہیں۔ دریں اثناء پیرکو صدر ٹرمپ نے بھی کہا تھا کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک امن معاہدہ طے پانے کے بارے میں پرامید ہیں۔
ایرانی وزارت خارجہ کا گزشتہ برس دسمبر میں کہنا تھا، ”ایران افغانستان کا ہمسایہ اور ایک اہم علاقائی طاقت ہے اور یہ افغانستان میں امن کے لیے ایک اہم کردار ادا کرنا چاہتا ہے۔‘‘ طالبان رہنما حال ہی میں پاکستان کے علاوہ چین اور روس کا بھی دورہ کر چکے ہیں۔