اس خبر سے پوری دنیا میں ہلچل مچ گئی کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع کے خلاف دائر درخواست کو از خود نوٹس میں بدلتے ہوئے حکومتی نوٹیفکیشن معطل کر دیا چیف جسٹس آصف سعید خان کھوسہ نے کہا ہے قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا وزیر اعظم کو تو آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار نہیں، صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں اس فیصلہ سے یقینا عمران خان کے سیاسی مخالفین بہت خوش ہوئے ہیں جب سے فیصلہ آیاہے وہ بھانت بھانت کی بولیاں بول رہے ہیں کیونکہ ان کی دانست میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کی حکومت کو تھام رکھاہے وگرنہ موجودہ حکومت ہر لحاظ سے ناکام ہوچکی ہے سیانے کہتے ہیںہر مسئلے کا حل موجودہ ہے یہی ہجہ ہے کہ عمران خان نے سارے کام چھوڑچھاڑکر وفاقی کابینہ کا ترت اجلاس بلالیا جس میںموجودہ حالات کا جائزہ لیا گیا وزیر اعظم کو عدالت ِ عظمیٰ کی کارروائی سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا گیا کہ جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا تھاکہ آرمی چیف کب ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔
اٹارنی جنرل نے بتایاکہ 29 نومبر کو آرمی چیف ریٹائرڈ ہو رہے ہیں، جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہاکہ آرمی چیف کی اسوقت عمر کیا ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ کیا ہوا پہلے وزیراعظم نے توسیع کا لیٹر جاری کردیا، پھر وزیراعظم کو بتایا گیا آپ نہیں کر سکتے، آرمی چیف کی توسیع کا نوٹیفکیشن 19 اگست کا ہے، 19 اگست کو نوٹیفکیشن ہوا تو وزیر اعظم نے 21 اگست کو کیا منظوری دی؟اٹارنی جنرل نے کہاکہ کابینہ کی منظوری چاہیے تھی،چیف جسٹس نے کہاکہ صرف صدر پاکستان ہی آرمی چیف کی مدت میں توسیع کر سکتے ہیں۔ کیا صدر مملکت نے کابینہ کی منظوری سے پہلے توسیع کی منظوری دی؟ کیا کابینہ کی منظوری کے بعد صدر نے دوبارہ منظوری دی؟، ۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ قانون میں توسیع کے لئے کوئی شق ہے، چیف جسٹس نے کہاکہ آرمی چیف نے 3 ریٹائرڈ افسران کو سزا دی، افسران کی ریٹائرمنٹ معطل کرکے انکا ٹرائل کیا گیا اور سزا دی گئی، جسٹس منصور علی شاہ نے کہاکہ کابینہ میں توسیع کی کوئی وجوہات زیر بحث نہیں آئی، کیا کابینہ نے توسیع کی منظوری دیتے ہوے اپنا ذہن اپلائی کیاچیف جسٹس نے کہاکہ توسیع کی منظوری سرکولیشن سے کابینہ سے لی گئی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ پشاور ہائیکورٹ میں بھی اس طرح کی درخواست دائر ہوئی تھی جو واپس لے لی گئی تھی چیف جسٹس کا کہنا تھاکہ آرمی چیف کی توسیع کی ٹرم فکس کیسے کر سکتے ہیں، یہ اندازہ کیسے لگایا گیا کہ 3 سال تک ہنگامی حالات رہیں گے، ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، 3 سال کی ابتدائی آرمی چیف کی توسیع کسی رول کے تحت ہوتی، آرمی چیف کی توسیع کا رول آپ نہیں دکھا رہے۔جسٹس منصورعلی شاہ نے کہاکہ ایسا لگتا ہے نئی تقرری ہے توسیع نہیں ہے، چیف جسٹس نے کاکہاکہ کیا نئی تقرری کو قانون سے تحفظ حاصل نہیں ہے، قانون آرمی چیف کی دوبارہ تقرری یا توسیع کی اجازت نہیں دیتا، قانون میں نہ توسیع ہے نہ دوبارہ تقرری کا ذکر ہے۔
جسٹس منصورنے کہاکہ ایسے کیا ہنگامی حالت ہے کہ توسیع دی جا رہی ہے، جس کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی عدالت نے کہا ہے کہ اٹارنی جنرل مدت ملازمت میں توسیع یا نئی تعیناتی کا قانونی جواز فراہم نہ کر سکے، آرمی رولز کے تحت صرف ریٹائرمنٹ کو عارضی طور پر معطل کیا جا سکتا ہے، ریٹائرمنٹ سے پہلے ریٹائرمنٹ معطل کرنا چھکڑا گھوڑے کے آگے باندھنے والی بات ہے، کیس میں اٹھنے والی تمام نکات کا تفصیلی جائزہ لینے کی ضرورت ہے، عدالت کا کہنا ہے کہ وفاقی کابینہ کے 25 میں سے صرف 11 ارکان نے توسیع کی منظوری دی، صدر کی منظوری کے بعد معاملہ کابینہ میں پیش کیا گیا، کابینہ کے بعد سمری وزیراعظم اور صدر کو پیش نہیں کی گئی،عدالت نے درخواست گزار کی عدم پیروی کے باوجود آئین پاکستان کے آرٹیکل 184(3)کے تحت معاملے کو قابل سماعت قرار دیتے ہوئے قراردیا کہ اٹارنی جنرل نے قانون کی کوئی ایسی شق نہیں بتائی جس میں چیف آف آرمی اسٹاف کی مدت میں توسیع دوبارہ تعیناتی کی اجازت ہووزیر اعظم نے خود آڈر پاس کر کے موجودہ آرمی چیف کو تین سال کی توسیع دی ،حالانکہ آئین کے آرٹیکل 243 کے تحت صدر مجاز اتھارٹی ہوتا ہے اٹارنی جنرل کے مطابق وفاقی حکومت کے پاس اختیار ہے کہ سروسز چیف کومدت ملازمت میں توسیع دے،اٹارنی جنرل کی جانب سے خطے کی سیکیورٹی صورت حال والی بات عمومی ہے ،خطے کی صورتحال والی بات اگر درست تصور کر لی جائے تو مسلح افواج کا کوئی بھی شخص کہہ سکتا ہے کہ میری مدت ملازمت میں توسیع کی جائے۔
جبکہ حکومتی موقف یہ ہے کہ آرمی چیف کی توسیع نئی بات نہیں ، یہ جنرل ایوب خان کے دور سے آج تک ہورہی ہے اس حوالے سے کوئی ابہام نہیں ہے آرٹیکل 243کے تحت وزیراعظم کا اختیار ہے کہ وہ صدر کو مشورہ دے اور صدر وزیراعظم کی ایڈوائس پر سروسز چیف بشمول آرمی چیف تقرری ہو، صدر مملکت نے آرٹیکل 243کے تحت آرمی چیف کی تقرری کی اور توسیع کی منظوری دی۔ وزیراعظم کو یہ بھی صوابدید ہے کہ وہ اس چیز کا فیصلہ کریں کہ کیا یہ حالات ایسے ہیں کہ جس کے تحت توسیع دینے کی ضرورت ہے کہ نہیں، یہ وزیراعظم کا اختیار ہے، اس وقت ہمارے خطے میں غیر معمولی حالات ہیں۔ ان غیر معمولی حالات میں آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا اختیار وزیراعظم کے پاس ہے۔ سات سال بعد ہندوستان نے پاکستان کی سرزمین بالاکوٹ پر حملہ کرنے کی جرات کی۔ کارگل کے بعد پہلی دفعہ ایل او سی کو عبور کیا، یہ غیر معمولی واقعہ تھا، بھارتی طیارہ گر ایا گیا، ایل او سی پر شدید ٹینشن ہے ، گولہ باری کا سلسلہ جاری ہے، ہندوستان نے کشمیر میں 100دنوں سے زائد عرصہ ہوگیا ہے کرفیو نافذ کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارتی وزراء بار بار پاکستان کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔
پاکستان کا پانی روکنے کی دھمکی دی۔ ان غیر معمولی حالات کے مدنظر وزیراعظم نے فیصلہ کیا کہ آرمی کی کمانڈ میں ایک تسلسل ہونا چاہیے۔آرمی کی ریگولیشن 255 ہے جس کے تحت پہلے آرمی چیف جنرل کیانی کو توسیع دی گئی تھی وفاقی وزیر ریلوے شیخ رشید نے کہا کہ وفاقی کابینہ نے اور اتحادی جماعتوں نے وزیراعظم کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی ملازمت میں توسیع کے فیصلہ کو سپورٹ کیا اور جوش اور ولولہ سے جنرل قمر جاوید باجوہ نے پاک فوج کی کمانڈ کی اور بھارت کو منہ توڑ جواب دیا، وہ جمہوری حکومت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے رہے ، قمر جاوید باجوہ کی تین سال کی توسیع کی حمایت کی اور وقت کا تقاضا قراردیا ، یہ جو کہا جا رہا ہے کہ 11وزراء نے دستخط کیا،رولز واضح ہے ، جو انکار نہیں کرتے اس کو اقرار سمجھا جاتا ہے ، وزیراعظم عمران خان نے دوراندیشی سے آرمی چیف کی مدت کی توسیع کی ، عدالت کے تقاضے پورے کرنے کیلئے فیصلے کئے گئے۔شیخ رشید نے کہا کہ آپریشن ردالفساد سے لیکرآج تک جو آپریشن ہوئے ہیں وہ آرمی چیف کی توسیع کی وجہ ہے وفاقی کابینہ نے پاکستان ڈیفنس سروسز رولز کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کرتے ہوئے آرٹیکل 255 میں لفظ ایکسٹینشن کا اضافہ کیا گیا۔ وفاقی کابینہ نے آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا پہلا نوٹیفکیشن واپس لے لیا، نوٹیفکیشن 19 اگست کو وزیراعظم کے دستخط سے جاری ہوا تھا۔