اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ کا آرمی چیف کی توسیع کا فیصلہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی، ائیر چیف اور نیوی چیف پر بھی لاگو ہوگا؟
آرمی چیف کی طرح، ائیر اور نیول چیف بھی اپنی اپنی متعلقہ فورسز کی کمان کرتے ہیں اور ملکی سرحدوں کے دفاع کے معاملے میں اپنی ذمہ داریوں کے تحت وہ بھی اسی کیٹگری میں شمار ہوتے ہیں۔
مزید یہ کہ آئین کے آرٹیکل 243؍ پر سپریم کورٹ میں آرمی چیف کی توسیع کے کیس میں گزشتہ چند روز سے تفصیلاً بحث ہوئی ہے، یہ آرٹیکل تینوں عسکری سربراہان (آرمی، نیوی اور فضائیہ) اور ساتھ ہی چیئرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کمیٹی کے متعلق ہے۔
اپنے مختصر فیصلے میں سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل کی دوٹوک یقین دہانیوں کا حوالہ دیا کہ ماضی میں دی جانے والی توسیع (آرمی چیفس کی جانب سے خود کو دی جانے والی توسیع یا پھر حکومت کی جانب سے ملنے والی توسیع جو جنرل قمر جاوید باجوہ کیس میں بھی دی جا رہی ہے) کی روایتوں کو اب قانونی شکل دی جائے گی۔
اٹارنی جنرل نے ذمہ داری لیتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت اس ضمن میں ضروری قانون سازی کیلئے اقدامات کرے گی اور مطلوبہ کام 6؍ ماہ میں کر لیا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے آرڈر میں لکھا ہے کہ ’’یہ دیکھتے ہوئے کہ چیف آف آرمی اسٹاف کمان، نظم و ضبط، تربیت، انتظامیہ، تنظیم اور جنگی تیاری کے ذمہ دار ہیں، اور وہ جنرل ہیڈکوارٹرز میں چیف ایگزیکٹو ہیں، ہم نے عدالتی لحاظ سے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا اور یہ معاملہ پارلیمنٹ اور وفاقی حکومت پر چھوڑا ہے کہ اب وہ چیف آف آرمی اسٹاف کی ملازمت کی شرائط و قوائد کا تعین ایکٹ آف پارلیمنٹ کے ذریعے کرے تاکہ اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 234؍ کا دائرہ واضح ہو سکے۔‘‘
جس طرح سپریم کورٹ نے آرمی چیف کی ذمہ داریوں اور کام کاج کے حوالے سے اپنے آرڈر میں فرمایا ہے، بالکل اسی طرح ائیر فورس اور بحریہ کے سربراہان بھی اپنی اپنی متعلقہ فورسز میں اپنی کمان، نظم و ضبط، تربیت، انتظامیہ، تنظیم اور جنگی تیاری کے ذمہ دار ہوتے ہیں اور وہ بھی اپنے اپنے متعلقہ ہیڈکوارٹرز میں چیف ایگزیکٹو ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ آئین کے جس آرٹیکل 243؍ پر زیادہ بحث ہوئی ہے وہ تمام مسلح افواج کی کمان کے متعلق ہے۔ یہ آرٹیکل تمام سروسز چیف کے تقرر کا ایک ہی طریقہ بیان کرتا ہے۔
آرٹیکل 243؍ میں لکھا ہے کہ۔۔۔
(1) وفاقی حکومت کے پاس مسلح افواج کی کمان اور کنٹرول ہوگا۔
(2) قبل الذکر حکم کی عمومیت پر اثر انداز ہوئے بغیر، مسلح افواج کی اعلیٰ کمان صدر مملکت کے ہاتھ میں ہوگی۔
(3) صدر مملکت کو قانون کے تابع یہ اختیار ہوگا کہ وہ (الف) پاکستان کی بری، بحری اور فضائی افواج اور مذکورہ افواج کے محفوظ دستے قائم کرے اور ان کی دیکھ بھال کرے؛ اور (ب) مذکورہ افواج میں کمیشن عطا کرے۔
(4) صدر مملکت، وزیراعظم کے ساتھ مشورے پر (الف) چیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف کمیٹی، (ب) چیف آف آرمی اسٹاف، (ج) چیف آف نیول اسٹاف؛ (د) چیف آف ائیر اسٹاف کا تقرر کرے گا، اور ان کی تنخواہوں اور الائونسز کا تعین بھی کرے گا۔
اٹارنی جنرل کی سپریم کورٹ کو کرائی جانے والی یقین دہانی کے تناظر میں، توقع ہے کہ حکومت آرمی چیف کو ان کی ملازمت میں توسیع دینے کیلئے قانون میں ترمیم کی خاطر نئی قانون سازی کرے گی۔
آرٹیکل 243؍ میں ترمیم کی جائے گی یا پھر آرمی ایکٹ یا کسی دوسرے متعلقہ قانون میں نیا اضافہ کیا جائے گا۔
تاہم، سپریم کورٹ کے فیصلے یا اٹارنی جنرل کی یقین دہانیوں سے بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ توسیع کی شق متعارف کرائی جائے گی یا نہیں، اور کیا اس کا اطلاق صرف آرمی چیف پر ہوگا یا ائیر فورس اور بحریہ کے سربراہان اور ممکنہ طور پر چیئرمین جوائنٹس چیف آف اسٹاف کمیٹی پر بھی اس کا اطلاق ہوگا۔
گزشتہ دو روز کی سماعت کے دوران، اپنے مشاہدات میں سپریم کورٹ نے جرنیلوں کی جانب سے بار بار توسیع لینے کی ماضی کی روایات کا ذکر ایک ایسے اقدام کے طور پر کیا جس کی حوصلہ افزائی نہیں کرنا چاہئے۔
تاہم، اپنے فیصلے میں عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کی یقین دہانی پر انحصار کیا تاکہ اس طرح کی روایات کو قانونی شکل دی جائے۔