اقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال یکم دسمبر کو ایڈز سے متعلق آگاہی و شعور کی فراہمی کا عالمی دن منایا جا تا ہے۔پاکستا ن میں بھی ایڈز سے بچاؤکا عالمی دن منایا جاتا ہے،ایڈزکا مرض دنیا کی چوتھی بڑی بیماری کے طور پر سامنے آرہا ہے۔اقوام متحدہ کے تحت ایڈزکا عالمی دن پہلی مرتبہ 1987ء میں منایا گیا،یہ دن منانے کا مقصد عوام میں اس مہلک مرض سے بچاؤکیلئے احتیاطی تدابیر کے بارے میں شعور و آگاہی پید اکرنا ہے۔ ایک سروے کے مطابق ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں جنوب ایشیائی ممالک میں پاکستان دوسرے نمبر پر ہے زیادہ تر محققین کا خیال ہے کہ ایچ آئی وی وائرس کا آغاز بیسویں صدی میں شمالی افریقہ کے علاقہ سحارہ سے شروع ہوا۔جنوری 2006ء میں اقوام متحدہ اور عالمی صحت کی تنظیم (World Health Organization) کے مشترکہ اعداد و شمار کے مطابق 5 جون 1981ء میں ایڈز کی جانکاری کے بعد سے تقریباً 2 کروڑ پچاس لاکھ افراد ہلاک ہو چکے تھے۔ صرف 2005ء میں ایڈز سے 24 لاکھ سے 33 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جن میں سے 5 لاکھ ستر ہزار بچے تھے۔
آج یہ عالمی دن 31 ویں مرتبہ منایا جا رہا ہے۔ اس دن علامتی طور پر لوگ سرخ ربن بھی باندھتے یا لگاتے ہیں۔اقوام متحدہ کے ایڈز سے متعلق پروگرام کے مطابق عالمی سطح پر 37.9 ملین افراد ایچ آئی وی کے ساتھ زندگی گزار رہے تھے۔ جن میں 23.3 ملین افراد antiretroviral تھراپی تک رسائی حاصل کر رہے ہیں جبکہ 1.7 ملین افراد ایچ آئی وی سے نئے متاثر ہوئے، اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اب تک ایڈز سے وابستہ بیماریوں سے 770 000 افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں۔80 کی دہائی میں یہ بیماری منظر عام پر آئی تھی۔ اس کے بعد سے دنیا بھر میں 77 ملین افراد اس سے متاثر ہو ئے۔ جبکہ تقریباً نصف یعنی 35 ملین ایڈز اور اس سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہو چکے ہیں۔1980 دنیا بھر میں اس بیماری سے متاثرہ افراد کی تعداد اب تقریباً 37.9 ملین ہے، تاہم یو این ایڈز پروگرم نے خبردار کیا تھا کہ اس بیماری کے خلاف عالمی سطح پر کی جمانے والی کوششیں سست روی کا شکار ہو رہی ہیں۔ ادارے کی ایک رپورٹ میں کہا گیا کہ ایڈز کے علاج میں اضافے سے اموات کی شرح میں کمی واقع ہوئی ہے، ”زندگی بچانے کی شرح میں اضافے کا ایچ آئی وی وائرس کو کم کرنے کی شرح سے موازنہ نہیں کیا جا سکتا۔“ایڈز سے ہونے والی اموات کی شرح اس صدی کی اپنی نچلی ترین سطح پر ہے۔ گزشتہ برس ایک ملین سے کم افراد ایڈز اور اس سے متعلقہ بیماریوں کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔دوسری جانب اس مہلک بیماری کے خلاف امداد کی شدید کمی کا بھی سامنا ہے۔ اس کی وجہ سے اس سے بچاؤ کے لیے مہیا کی جانے والی خدمات سے ایسے بہت سے لوگ فائدہ نہیں اٹھا پا رہے، جنہیں اس کی فوری ضرورت ہے۔ اس کے علاوہ ایڈز کے مریضوں سے نفرت آمیز رویہ بھی بدستور ایک بڑا مسئلہ ہے۔
دستیاب معلومات کے مطابق ایچ آئی وہ وائرس انسانی جسم میں مختلف ذرائع سے داخل ہوجائے تو خاموش رہنے والا یہ خطرناک وائرس آہستہ آہستہ انسانی قوت معدافت نظام کو تباہ کرنا شروع کردیتا ہے۔ ایچ آئی وی وائرس کا براہ راست حملہ خون کے سفید خلیات پر ہوتا ہے۔ ان سفید خلیات کو CD4 خلیات بھی کہا جاتا ہے۔قدرت انسانی جسم میں مختلف بیماریوں سے بچاؤ کے لئے ایک فطری نظام یا دفاعی سسٹم بنایا ہوا ہے۔ ایچ آئی وی وائرس اس نظام پر حملہ کرکے اسے ختم کرتے ہوئے کم کرتا چلا جاتا ہے اور جب یہ وائرس کے باعث ختم ہوجاتے ہیں تو جسم کی مدافعت بھی ختم ہوجاتی ہے۔ایڈز کا مرض ابھی تک قابل علاج نہیں ہوسکا ہے۔ مہنگے اور طویل و صبر طلب مراحل کی وجہ سے مریض کے لئے ایڈز کا مقابلہ کرنے کے لئے معاشرے کی ضرورت ناگزیر ہوتی ہے۔ موجودہ دور میں ڈی این اے ویکسین کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ اس کے تجربات کامیاب رہے ہیں۔
تاہم تحقیقی و تجرباتی مراحل ابھی باقی ہیں اور اس بات کی توقع کی جا رہی ہے کہ مستقبل قریب میں کامیاب و مکمل علاج میں کامیابی مل سکے۔ایڈز کی علامات کے حوالے سے دستیاب ذرائع کے مطابق اس کی علامات مختلف افراد میں مختلف مل سکتی ہیں جن میں اہم یہ ہیں۔ہو سکتا ہے کہ کوئی علامت یا مرض کا اشارہ اور تکلیف ظاہر ہی نہ ہو۔ لیکن عام طور پر HIV کے عدوی کے (ایڈز) کے مختلف علامات و اشارات ملتے ہیں جن کی شدت مرض کے عرصہ اور مریض کی جسمانی حالت کے مطابق مختلف ہوسکتی ہیں۔مدافعتی نظام کے کمی کے باعث پیدا ہونے والے ایسے امراض جن کا انسانی جسم عام طور پر مقابلہ کر کے محفوظ رہتا ہے وہ بھی بیماریاں پیدا کرتے ہیں۔
بخار، سردی کا لگنا اور پسینہء شب (سوتے میں پسینہ)،دست،وزن میں کمی،کھانسی اور سانس میں تنگی،مستقل تھکاوٹ،جلد پر زخم مختلف اقسام کے نمونیائی امراض، آنکھوں میں دھندلاہٹ اور سردرد ہیں۔ تاہم علامات کو صرف ایڈز سے تعبیر کرنے سے پہلے اپنے قریبی ایڈز کنٹرول پروگرام کے دفتر یا مستند ڈاکٹر و رپورٹ پر یقین کرنا چاہیے۔ ایڈز کے حوالے سے ہمارے معاشرے میں کچھ غلط فہمیاں بھی پیدا ہوئی ہیں، جس میں ایڈز سے متاثرہ فرد کو اچھوت بیماری کی طرح دیکھا جاتا ہے۔ ایچ آئی وی سے متاثرہ لوگوں کے اردگرد رہنے سے آپ بھی اس میں مبتلا ہو جائیں گے۔خون میں اس وائرس کی موجودگی کا پتہ لگانے کے لیے خون کا ٹیسٹ ضروری ہوتا ہے۔ایک طویل عرصے تک غلط تصور تھا جس کی وجہ سے ان سے امتیازی سلوک برتا جاتا تھا۔ اس کے باوجود کہ اس حوالے سے بہت سی آگاہی کی مہمات چلائی جاتی ہیں۔
زیادہ لوگ اس بات پر یقین رکھتے تھے کہ ایچ آئی وی ایڈز تھوک اور متاثرہ مریض کی جلد سے یعنی اسے چھو لینے سے بھی پھیل جاتا ہے۔لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ کسی کو چھونے سے، آنسوؤں سے، پسینے سے، تھوک سے یا پھر پیشاب سے منتقل نہیں ہوتا۔ایک ہی ہوا میں سانس لینے سے،معانقہ کرنے سے، بوسہ لینے سے یا ہاتھ ملانے سے،ایک دوسرے کے کھانے کے برتن استعمال کرنے سے،نہانے کے لیے ایک شاور استعمال کرنے سے،ایک دوسرے کی ذاتی اشیا استعمال کرنے سے،جم میں ایک ہی مشین استعمال کرنے سے،ٹائلٹ کی سیٹ کو چھونے سے، دروازے کے ہینڈل کو چھونے سے، 1991 میں لیڈی ڈیانا ایچ آئی وی ایڈز کے شکار ایک مریض سے ملیں تاکہ اس وائرس کی منتقلی کے حوالے سے پھیلے غلط تصورات کو ختم کیا جا سکے،ایچ آئی وی ایڈز جسم میں موجود سیال مادوں کی کسی دوسرے شخص کے جسم میں منتقل ہونے سے ہوتا ہے جیسے خون، اندام نہانی سیال یا عورت کے دودھ سے۔ متاثرہ عورتیں اس کو اپنے بچوں کو دوران میں حمل، دوران میں ولادت یا بعد از پیدائش دودھ کے ذریعہ منتقل کرسکتی ہیں۔
پاکستان میں ایڈز کے جتنے کیسز رپورٹ ہوئے وہ اصل تعداد سے کہیں کم ہیں اور ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں ایڈز سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک لاکھ 63 ہزار ہے۔ ان میں سے 82 ہزار کا تعلق صوبہ پنجاب سے ہے جب کہ 60 ہزار مریض صوبہ سندھ میں ہیں۔نیشنل ایڈز کنٹرول پروگرام’ کے پاس ایڈز سے متاثرہ صرف 25 ہزار افراد کا اندراج ہے۔ باقی متاثرہ افراد میں سے صرف 5 یا 10 فی صد لوگ اپنے مرض سے واقف ہیں جن میں سے محض 16 ہزار افراد مستقل دوائی لیتے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے مطابق پاکستان میں صرف 2017 کے دوران ایچ آئی وی ایڈز کے 20 ہزار نئے کیس رپورٹ ہوئے۔ پاکستان ایشیا اور بحرالکاہل خطے کا ایسا ملک ہے جہاں ایڈز کا مرض تیزی سے پھیل رہا ہے۔ایک جائزے کے مطابق پاکستان کے اسکولوں اور کالجوں میں زیرِ تعلیم طالب علموں میں سے صرف دو سے پانچ فیصد ہی ایڈز کے متعلق جانتے ہیں، جو ایک تشویش ناک بات ہے۔ ایک لاکھ چالیس ہزار سے زیادہ افراد کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں کہ ان کے اس مرض میں مبتلا ہونے کی کیا وجوہات ہیں۔عالمی ادارہ صحت کا کہنا ہے کہ دنیا میں چار میں سے ایک شخص جو ایڈز میں مبتلا ہے اسے علم نہیں کہ وہ اسکا شکار ہو چکا ہے۔ مطلب یہ کہ نوے لاکھ چالیس ہزار لوگ خود میں موجود اس وائرس سے لاعلم ہیں۔ اور اس کی دوسروں میں منتقلی کا خطرہ لاحق ہے۔
عوام کی بڑی تعداد میں اس حوالے سے نا مکمل آگاہی پر بات کرتے ہوئے ایڈز کی آگاہی فراہم کرنے والی ایک تنظیم،پاکستان ایڈز کنٹرول فیڈریشن کے چیف ایگزیکیٹو راجا خالد محمود کہتے ہیں،”ملک میں ہمارے سامنے جو کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، ان کی تعداد زیادہ نہیں ہے کیونکہ لوگ اپنا ٹیسٹ کروانے سے گھبراتے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اگر ایچ آئی وی کسی کو لاحق ہوتا ہے اور ٹیسٹ میں یہ مرض ثابت ہو جاتا ہے تو ان کے ساتھ ملک میں ایک بدنامی جڑ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مریضوں کی جب کم تعداد سامنے آتی ہے تو یہ خیال کیا جانے لگتا ہے کہ یہ مسئلہ اتنا سنگین نہیں ہے جبکہ حقیقت میں یہ ایک بہت ہی سنگین مسئلہ ہے۔“سندھ ایڈز کنٹرول پروگرام کے کو آرڈینٹر ڈاکٹر سکندر اقبال بھی اس بات کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں،”جب سے ہمارے ملک میں ایچ آئی وی وائرس آیا ہے، اس وقت سے لوگوں کے ذہن میں یہ بات نقش ہے کہ یہ بیماری مغرب سے آئی ہے۔ چونکہ وہاں کے کلچر اور رہن سہن میں جنسی آزادی شامل ہے اس لیے لوگوں کے خیال میں یہ بیماری صرف جنسی بیراہ روی کی وجہ سے پھیلتی ہے۔ یہ ہی خیال دیگر مشرقی ممالک کی طرح پاکستان میں بھی رائج ہے کہ اس کی وجہ غیر اخلاقی سرگرمیاں اور بے راہ روی ہے۔ پھر اگر خواتین کے حوالے سے دیکھیں تو ان کے لیے یہ بیماری ایک اسٹیگما یا بدنامی کا داغ رہی ہے۔ عموماً اس بیماری سے متاثرہ خاتون پر ان کے اہل خانہ یا شوہر یہ ہی الزام لگاتے ہیں کہ کسی سے تعلقات کے باعث وہ اس مرض میں مبتلا ہوئی ہو گی۔“ایڈز کے حوالے سے ہمارا معاشرتی کردار نوجوان نسل کو مضمرات و نقصانات سے آگاہ کرنا ہونا چاہیے۔ خاموش رہنے سے ایک مریض غلطی سے کئی انسانوں کی جان خطرے میں ڈال سکتا ہے۔