ناپسندیدہ شخصیات کے پسندیدہ کارنامے (بے نظیر بھٹو)

Benazir Bhutto

Benazir Bhutto

تحریر : میر افسر امان

بے نظیر بھٹو پاکستان کی دو مرتبہ وزیر اعظم بنی۔ اپنے والد ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ذہین سیاست دان تھی۔کچھ حلقوں میں ناپسندیدہ اور اپنے میں پسندیدہ تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے اپنے دور حکومت میں اپنے بڑے بھائی میر مرتضےٰ بھٹو کا پاکستان کے مشہور معروف پوش علاقے کلفٹن، بلکہ عین اس کے گھر کے سامنے چوک پر پولیس کے ہاتھوں بے دردی سے قتل ہوا ۔ بے نظیر کے پاکستان کی دو دفعہ وزیرا عظم ہونے کے باوجود آج تک قاتلوں کا تعین نہیںہوا ، قرار وا قعی سزا کیا ملتی؟۔ ایک دفعہ کہا تھا کہ آذان بج رہا ہے۔ آذان کوئی کلیسا کا گھنٹہ تو نہیں کہ جو بج رہا ہے۔ بلکہ زندہ جادید انسان اذان دیتا ہے جو سنی جاتی ہے۔ یہ بھی کہا کہ سیاست دان سرمایا، باہر اس لیے رکھتے ہیں کہ سرمایہ پاکستان میں محفوظ نہیں رہتا۔ اگر کسی ملک کی سربراہ ایسی باتیں کرے تو لوگوں کو شہ ملتی ہے۔

پھر سرائے محل اورلانچوں میں پیسے بھر بھر کے باہر جاتے ہیں۔ مغربی تہذیب سے متاثر تھیں۔اس کے دور میں بے رہ روہی عروج پر تھی۔ بے نظیر کے وزیر اعظم بننے پر اسلامی تہذیب کے مطابق کسی اسلامی سلطنت کی چیف ایگزیکٹیو بننے میں علماء میں اختلاف تھا۔ خاتون اسلامی سلطنت کی مشیر تو بن سکتی ہے مگر سربراہ نہیں۔ ویسے بھی اگر دنیا کے غیر مسلم ملکوں کے چیف ایگزیکٹیو کی بات کی جائے تو عورتیں خال خال ہی نظر آتیں ہیں۔بحر حال اسلامی دنیا میں بھی مخصوص حالات میں علماء میں سکوت دیکھا گیا ہے۔ جیسے محترمہ مادر ملت، فاطمہ جناح کے معاملے میں دیکھا جا سکتا ہے۔اپنے دورمیں پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو سکھ حریت پسندوں کی لسٹیں فراہم کرنے کا الزام لگا۔بھارتی وزیر اعظم راجیو کے پاکستان کے دورے کے دوران سڑکوں پر سے کشمیر کے بورڈ ہٹا دیے گئے تھے۔

دنیا کی واحد اسلامی ریاست پاکستان، جس کا نظریہ پہلے تخلیق کیا گیا۔ یعنی پاکستان کا مطلب کیا” لا الہ الا اللہ” اور ملک اس نظریہ کی بنیادپر بعد میں حاصل کیا گیا۔اس کے بانی حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے تحریک پاکستان کے دوران وا شگاف الفاظ میں کہا تھا کہ پاکستان تو اسی وقت وجود میں آگیا تھاجب براعظم( بر صغیر)کا پہلا شخص اسلام کے بابرکت دین میں داخل ہوا تھا۔ براعظم کیا یہ نظریہ توویسے بھی اسلام اور کفر کی پہلی جنگ بدر میں ظاہر ہو گیا تھا۔ اس نظریاتی جنگ میںایک طرف باپ تو دوسری طرف بیٹا۔ بھائی بھائی ایک دوسر ے سے لڑے۔ ایک طرف کفر پر بضد تو دوسری طرف ایمان لانے والے۔ یہی معاملہ تحریک پاکستان میں تھا۔ ایک طرف مشرک ہندوئوں کے تخلیق کردہ بیانیہ ،کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں۔ تحریک پاکستان کے دوران براعظم کے مسلمان دو دھڑوں میں بٹ گئے۔ ہندوئوں کے تخلیق کردہ بیانیہ کہ قومیں اوطان سے بنتی ہیں پر علماء میںدیو بند کے حسین احمد مدنی اور سیاست دانوں میں بڑے بڑے مسلمان سیاست دان شامل تھے۔ اِنہوں نے قومیت کے تحت سیکولرزم اور قائد اعظم نے نظریہ اسلام اوراسلام کے تخلیق کردہ دو قومی نظریہ، قومیت ،جسے شاعر اسلام، مفسر قرآن و حدیث، حضرت علامہ شیخ محمد اقبال نے اپنے ایک شعر میں اسطرح بیان کیا:۔

اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر۔

خاص ہے ترکیب میں قوم ِرسولۖ عاشمی۔

اسی اسلامی قومیت کو سید موددی نے اپنی تحریروں میں اسلام کی روشنی میں مفصل طور پر بیان کیا تھا۔اس سے تحریک پاکستان کے دوران آل انڈیا مسلم لیگ کے مؤقف کی بھر پور تائید ملی۔ اسلامی قومیت پر یہ تحریریں آج بھی کتابی شکل میں موجود ہیں۔پاکستان بننے کے بعد قائد اعظم نے مولانا موددی سے کہا کہ ہم پاکستان میں اسلام کس طرح نافذ کریں اس کے طریقے بتائیں۔ مولا نا موددی نے ریڈیو پاکستان پر اسلام موجودہ دور میںکس طرح نافذ ہو گا، اپنی تقریروں میں طریقے بتائے۔ یہ تقریر ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں اب بھی موجود ہو گی۔ ویسے جماعت اسلامی کے شعبہ پبلیکیشن نے ان تقریروںکو کتابی شکل میں بھی عوام کے سامنے پیش کیا۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان بننے کے بعدپاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” کے عملی نفاذ کے لیے ،قائد اعظم نے ایک ا دارہ” ریکنسٹریکشن آف اسلامک تھاٹ” یعنی اسلامی فقہ کی تدوینِ جدید” کے لیے ایک ادارہ قائم کیا۔ اس کا سربراہ جرمن نو مسلم علامہ اسد کو بھی اسلامی نفاذ کے عملی طریقے وضع کرنے پر لگایا تھا۔ مگر اللہ کی مشیت کہ اللہ نے قائداعظم کو اپنے پاس جلد بلا لیا۔یاد رہے کہ مولانا موددی اور علامہ اسد پاکستان بننے سے پہلے١٩٣٨ء ١٩٤٧ء تک علامہ اقبال کی سوچ اورقائد اعظم کی رضا مندی سے، اسلام کے ایک شیدائی چوہدری نیاز علی خان کی طرف مہیا کی گئی زمین، دارلسلام پٹھان کوٹ، جمال پور ،ضلع گرداس پور میں اسلام کے عملی نفاذ کے لیے کام شروع کرچکے تھے۔

قائد اعظم کی وفات کے بعد اقتدار میں آنے والے اگرکچھ حلقوں میںناپسندہدہ شخصیات قائد اعظم کے جاری کیے منصوبوں پر عمل کر کے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنا

٢
دیتے تو جو آج ہماری حالت ہے، یہ حالت نہ ہوتی۔ ذوالفقار علی بھٹونے اسلام کے مخالف کیمونزم سے متاثر ہو کر سوشلزم کی بنیاد پر پاکستان کے نظام حکومت کو چلانے کی کوشش کی۔ یہ کوشش قائد اعظم کے وژن کے مخالف اور تحریک پاکستان کے دوران اللہ سے دعدے کے خلاف بغاوت تھی۔ اللہ تعالیٰ کی سرپرستی سے ہٹ کر سوشلزم کے بت کی پوجا کی۔ جس پر بے نظیر بھٹو عمل کرتی رہی۔ اسی وجہ سے پاکستان کے کچھ حلقے بے نظیر کو پسند نہیں کرتے۔ابتدء سے ہی غریب عوام کو اسلام کی تعلیمات سے ہٹا کر، ازموں کے چکر میں ڈال کر روٹی کپڑا اور مکان کے بے سود نعروںکے فریب میں عوام م کو مبتلاکیا۔ہم مسلمان ہے اگر ہم اسلام پر عمل کرتے تو اللہ ہم سے راضی ہوتا۔پاکستان میں رزق عام ہوتا۔ امن و امان ہوتا۔ بے روزگاری اور مہنگاہی نہ ہوتی۔ غریب عوام کو عزت ملتی۔ہر طرف خوش حالی ہوتی۔ہمارے مسائل کا حل اسلام کے لائے ہوئے نظام سلطنت میں ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن شریف میں فرماتا ہے کہ” اگر بستیوں کے لوگ اللہ کے احکامات پر عمل کرتے تو اللہ آسمان سے رزق نازل کرتا اور زمین اپنے خزانے اُگل دیتی” ۔

اللہ نے ا نسان کو اچھی بُری خصلتیں دے کر پیدا کیا ہے۔ پتہ نہیں اللہ کسی کی کس نیکی سے اللہ راضی ہوجائے۔ یورپ میں جب بوسنیا میں سرب سفاک قاتل مسلمانوں کو مولی گاجر کی طرح کاٹ رہے تھے تو ترکی کی وزیراعظم تانسو چلر اور پاکستان کی وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے بوسینیا کے عوام کے ساتھ یکجہتی اورہمدردی کے لیے بوسنیا کا دورہ کیا۔ تانسو چلر نے بوسنیا حکام کی ہدایت پر حفاظت کے لیے بلٹ پروف جیکٹ پہنی ۔ مگربے نظیربھٹو نے بلٹ پروف جیکٹ پہنے سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ موت نے ایک دن آناہے۔اس بہادری پر اسلامی دیا اور پاکستان میں بے نظیر بھٹو کی تعریف کی گئی۔ہفت روزہ تکبیر کے ٢١ تا ٢٧ نومبر ٢٠١٩ء کے ایڈیٹوریل کے مطابق سرب ظالم ٹینکوں پر بیٹھ کر آتے مردوں کو قتل کر دیتے اور عورتوں کے ساتھ اجتماہی آبروزی کرتے۔ یہ ظلم بے نظیر سے برداشت نہ ہوا۔

بے نظیر بھٹو نے پاکستان سے اینٹی ٹینک میزائل بوسینا کو سپلائی کیے۔ جب سرب درندے مسلمانوں کی بستیوں کی طرف ٹینکوں پر بیٹھ کر آتے۔ پاکستان کی طرف سے دیے گئے اینٹی ٹینک میزائل ، سرب ٹینکوں کے آئینی چین توڑ کر تباہ کر دیتے۔ بے نظیر کا یہ کارنامہ اسلامی تاریخ میںسنہری الفاظ میں یادرکھا جائے گا۔اس طرح زمینی جنگ میں بوسنیا کا پلڑا بھاری رہا۔کیا مدینہ کی اسلامی ریاست والے عمران خان بے نظیر کی طرح بہادر بن کر مظلوم کشمیری ،جن کی ہزاروں عزت ما ب خواتین کی سفاک بھارتی فوج، اجتماہی آبروریزی کر چکے ہیں اور مہینوں سے جاری کرفیو میں بندخواتین کی اب بھی کر رہے ہیں۔

کیامظلوم کشمیریوں کوکھلے عام اسلحہ فراہم کرنے کی جرأت کر سکتا ہے؟بے نظیر ایک بہادر خاتون تھی۔ ڈکٹیٹر مشرف کے ساتھ ایک معاہدے کے تحت خود ساختہ جلاوطنی ختم کر کے پاکستان آئی ۔ پہلے کراچی میں خود کش حملوں میں بچ گئی۔ راولپنڈی کے جلسے میں خطاب کے بعد گاڑی میں بیٹھی ہوئی تھی کہ اخبارات کے مطابق آصف علی زرداری نے دوبئی سے فون کال کی۔ کہا کہ عوام آپ کے کو دیکھنا چاہتی ہے۔ جیسے ہی بے نظیر گاڑی کی چھت سے باہر نکلی ملک دشمنوں نے انہیں فائرنگ سے شہید کر دیا۔ بہادر خاتون امریکاکی چالوں کی وجہ سے جان گنوا بیٹھی۔ اللہ ان کی نیکیاں قبول فرمائے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان