پریشانیاں ہر انسان کی زندگی کا حصہ ہیں پریشانیوں کو اپنے اوپر حاوی کرنے سے مختلف قسم کے امراض لاحق ہوتے ہیں اس لئے انسان کی پریشانیوں کو دور کرنے کے لئے مختلف قسم کے ناٹک کئے جاتے تھے جو چند لمحات کے لئے انسانی پریشانیوں پر غالب آ کر انسان کو مسرت بخشتی ہیں یعنی انسان میں تماشا دیکھنے کا شوق فطری اور قدیمی ہے انسان اپنے دل و دماغ کی تسکین کے لئے من پسند تماشے دیکھتا ہے کیونکہ وہ اپنے عدید کو چند لمحے کے لئے بھول جانا جاتا ہے زمانہ قدیم میں لوگ رقص و سرو ر کی محفلیں مرتب کرتے تھے لیکن ڈرامے کا باقاعدہ آغاز یونان اور مصر کی تہذیبوں سے ملتا ہے سر زمین یونان کے دیوتا دیونی سس کے احترام میں رقص و سرور کی محفل سجائی جاتی تھی یونانی تہذیبوں کے پہلے ڈرامہ نگار تھیس پس ہیں جس نے پہلی دفعہ ڈرامہ لکھا اسی طرح مصری تہذیب میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ولادت سے دو تین ہزار سال قبل مصر کی تہذیب اپنے عروج پر تھی کیونکہ مصری تاریخ کے مطابق قدیم ترین انسانی تہذیب کا گہوارہ رہ چکی تھی۔۔
جان گیسز نے اپنی کتاب ،، ماسٹرز آف دی ڈرامہ،، میں اس دور کے ایک مذہبی ڈرامے کے بارے میں معلومات فراہم کیں جس میں مصری دیوتا اوری سس کی موت کے عجیب و غریب اور مافوق الفطرت واقعات دکھائے گئے تھے چینی تہذیب دنیا کی قدیم تہذیبوں میں شمار ہوتی ہے نکول کے مطابق چین میں اسٹیج ڈرامے کا آغاز حضرت مسیح علیہ السلام کی پیدائش سے کم و بیش گیارہ سو سال پہلے ہو چکا تھی لیکن جبک چین کے مطابق چین میں ڈرامے کا آغاز دو ہزار سال قبل مسیح میں ہوا اس دور میں ایسے ڈرامے لکھے گئے جن میں دیومالائی کرداروں اور رقصوں کو مرکزی اہمیت حاصل ہوتی تھی یہ روایت بڑے استقلال کے ساتھ قدیم عہد سے آج تک مسلسل چلی آ رہی ہے۔۔
مصر ، چین اور یونان کے ساتھ ساتھ برصغیر کی تہذیب کوبھی قدیم ترین تہذیبوں میں شمار کیا جاتا ہے خود قدیم ترین ہندوستانی اور یونانی ڈرامے کا تقابلی مطائعہ بھی اس حقیقت کا ثبوت فراہم کرتا ہے کہ ہندو ڈرامافنی لحاظ سے مختلف تھا اور اس کی نشوونما خودمختار طریقے سے اسی سر زمین میں ہوئی مثلاً ہندو ڈرامے میں تصادم ، کشاکش اور جدلیت کو خاص اہمیت حاصل نہیں ہے حالانکہ یونانی المیے کی بنیاد ہی کشمکش ، تصادم اور ٹکرائو پر رکھی گئی تھی ایک مرتبہ بہت سے دیوتائوں نے مل کر برہما سے گزارش کی کہ ان کی تفریح طبع کے لئے کوئی سامان بہم پہنچایا جائے چنانچہ برہما نے ،، رگ و ید سے رقص، سام وید سے سرود، یجر وید سے حرکات و سکنات اور اتھروید سے اظہار جذبات کا طریق لے کر ،، نٹ وید،، تیار کیا،، اور آسمانی معمار و شنو کرم کو اندر اسن میں ایک رنگ شالہ بنانے کا حکم دیا اس سٹیج پر ہدایت کاری کی خدمات بھرت منی ایک رشی کے سپرد ہوئیں ایک اور روایت کے مطابق سب سے پہلی رنگ شالہ واجہ ہنش نے بنوائی تھی اور اس نے گندہرب اور اپسرائوں کو بلواکر ان سے اداکاری کی خدمات لیںان روایات کے مافوق الفطری رنگ یا ان کے کذب و صداقت سے بحث نہیں بلکہ ان روایات سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہے کہ ہندو ڈراما قدامت کے اعتبار سے خود ہندو مذاہب کا ہم عمر اور ہم عصر ہے۔۔
مغرب کے مقابلے میں ہمارے یہاں ڈراما بہت کم لکھا گیا اور اچھے ڈراموں کی تعداد تو اتنی کم ہے کہ انہیں انگلیوں پر گنا جا سکتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کے بانی صوفیائے کرام اور مسلمان شعراء تھے اور ان حضرات نے اپنی ثقافت کی بناء پر ڈرامے کی طرف بالکل توجہ نہ دی جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اردو ادب کا ابتدائی دور ڈرامے سے بالکل خالی نظر آتا ہے دوسری وجہ یہ ہے کہ ہمارے ادب پر سب سے زیادہ اثر فارسی زبان و ادب کا تھا اور چونکہ فارسی میں ڈراما نگاری کی روایت نہ تھی اس لئے اردو میں بھی ڈراما نہیں لکھا گیا جبکہ ڈراما نہ لکھنے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اردو ادب کے دو بڑے مراکز دہلی اور لکھنئو تھے اور ان مراکز میں زیادہ تر شاعری کا چرچا تھااور درباروں کی سرپرستی بھی زیادہ تر شاعروں ہی کے لئے مخصوص تھی ہندوستان کے والیان ریاست میں واجد علی شاہ پہلے حکمران ہیں جنہوں نے سب سے پہلے ڈراما کی طرف سنجیدگی سے توجہ دی اور اردو کا سب سے پہلا ڈراما لکھا جس کا نام رادھا کنہیا ہے اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے اپنا مشہور ڈراما ،، اندر سبھا ،، لکھا اس طرح سے لکھنئو میں اردو ڈراما نگاری کی بنیاد پڑی جس کو اردو ڈرامے کا پہلا دور کہتے ہیںاردو ڈرامے کا دوسرا دور بمبئی سے شروع ہوتا ہے اس دور کے ڈراما نگاروں میں احسن لکھنوی، بیتاب بنارسی، طالب بنارسی اور منشی رونق ہیں مگر اس دور میں جو شہرت آغا حشر کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کے حصے میں نہ آ سکی اگرچہ بمبئی اس زمانے میں ڈراما کا مرکز بنا رہا اور لاتعداد تھیٹر کمپنیاں وجود میں آ گئیں جو بڑے تواتر سے ڈرامے سٹیج کرنے کا کام کرتی تھیں اس دور کے ڈرامے محض ایک تاریخی حیثیت کے حامل تھے مگر ان میں ادب دور دور تک نہیں تھااردو ڈراما کا تیسرا دور بمبئی کے بعد شروع ہوتا ہے اس دور کے ممتاز ڈراما نگاروں میں حکیم احمد شجاع، سید امتیاز علی تاج اور منشی دیا نرائن نگم وغیرہ شامل ہیں یہ حضرات قدیم تھیٹر کی روایات سے بخوبی آگاہ تھے اور انگریزی ادب سے بھی واقفیت رکھتے تھے اسی بناء پر ان ڈراما نگاروں نے ادبی طرز کے ڈرامے تصنیف بھی کئے اور غیر ملکی زبانوں کے کامیاب ڈراموں کے تراجم بھی پیش کئے اس طرح اس دور کے ڈراموں میں قدیم اور جدید ڈراما نگاری کا ایک امتزاج نظر آتا ہے۔۔
اردو ڈراموں میں پاکستان بننے کے بعد بہت ہی کم کام کیا گیا ٍیہ کام زیادہ تر ریڈیو اور ٹیلی ویژن پر کیا گیاآغا حشر کے مکالموں کا مزاح محض زبان کا چٹخارہ ہوا کرتا تھا اس کا تخاطب جذبات سے نہیں ذہن سے ہوتا تھا اس لحاظ سے مزاحیہ ڈرامے نے اردو ادب کو اچھوتا اور ایک نیا میدان دیا ہے جانے پہچانے افسانہ نگاروں میں احمد ندیم قاسمی ، انتظارحسین، ہاجرہ مسرور اور آغا بابر کو ڈرامے سے خاص لگائو رہا اور انہوں نے کئی ایک ڈرامے لکھے لیکن ان کے علاوہ ہر قبیل کے لکھنے والوں نے ڈرامے کو نوازا ہے قرة العین نے ٹی ۔ایس ایلیٹ کا ترجمہ کر ڈالا اول تو یہ چھپے ہوئے ڈرامے بہت ہی کم تھے جن میں ابراہیم جلیس کا ڈرامہ ،، اجالے سے پہلے،،،۔۔۔۔ ناصر شمسی کا ،،،،تیرے کوچے سے ہم نکلے،،،، اور منٹو کا ،،، اس منجھدار میں،،، شامل ہیں پاکستان میں خواجہ معین الدین نے ڈرامے کو ایک سریع الاثر فن کی صورت میں استعمال کیا انہوں نے ،،زوال حیدرآباد،،۔۔۔،،آخری نشان،،۔۔۔تعلیم بالغاں۔۔۔ اور ۔۔۔،، لال قلعہ سے لالو کھیت تک،، لکھے اسی طرح مرزا ادیب نے افسانے سے ہٹ کر ڈوامے کے فن پر خصوصی توجہ مبدولکرائی،،ستون،،۔۔،،لہور اور قالین،،۔۔۔ ان کے یک بابی ڈراموں کے مجموعے اور ،،شیشے کی دیوار ،، پورے وقت کا ڈراما ہے کمال احمد رضوی میں ڈراما نگار ، ہدایت کار اور اداکار تینوں کی خصوصیات جمع تھیںان کی خوبی یہ ہے کہ انہوں نے مغرب کے ڈراموں کو اس طرح مشرقی ڈھانچے میں تبدیل کیا کہ یہ طبع زاد نظر آتے ہیںاسی طرح بانو قدسیہ ڈرامے میں حالات و مسائل کو کرداروں کی معاونت سے تجزیاتی عمل سے گزارتی اور نتیجے کی واضح سمت کی طرف ناظر کو لے جانے کی کوشش کرتی ہیںانتظار حسین نے انسان کے داخل اور خارج کی کشمکش سے ابھرنے والے المیوں کو موضوع بنایا ہے امتیاز علیٰ تاج کو ڈرامے سے قلبی وابستگی تھی اس کا عملی اظہار ریڈیو ڈرامے میں بھی ہوا سعادت حسین منٹو نے ریڈیو ڈرامے میں سماجی مسائل کو موضوع بنایا اور سرکاری پابندیوں کی موجودگی میں ردعمل کی لہر کو زیر سطح پیش کرنے کا اندازہ رائج کیاان کے ڈراموں میں زندگی حقیقی اور متحرک صورت میں سامنے نظر آتی ہے ڈراموں کو لکھنے اور سٹیج پر کرنے کے لئے ڈرامے کی اقسام اور ڈرامے کے فنی عناصر کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔۔
ڈرامے کے واقعات کی بناء پر ڈرامے کو آٹھ قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے جن میں المیہ، طربیہ، سوانگ، میلو ڈراما، ڈریم، مخلوط، یکبابی اور نشری ڈراما شامل ہیں اسی طرح کسی بھی ڈرامے میں فنی عناصر بڑی اہمیت کے حامل ہوتے ہیںان میں پہلا ڈرامے کا پلاٹ ہوتا ہے ڈرامے میں چند واقعات ایک باطنی اور فظری تسلسل کے ساتھ اس طرح پیش کئے جائیں کہ ایک قصہ یا کہانی وجود میں آجائے تو واقعات کا یہ مجموعہ پلاٹ کہلاتا ہے ڈرامے کا دوسرا فنی عنصر کردار ہے کردار ڈرامے کا ایک اہم جزو ہوتا ہے جس کے بغیر ڈرامے کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا دراصل کرداروں کی گفتگو اور حرکات و سکنات ہی کا دوسرا نام ڈراما ہے کرداروں ہی کے ذریعے ڈراما نگار پلاٹ کی وضاحت کرتا اور ڈرامے کے واقعات میں پوشیدہ مفہوم کو ہم تک پہنچاتا ہے ڈرامے میں تیسرا عنصر مکالمہ ہے کردار اپنی سوچ اور کیفیات کا اظہار جس گفتگو کے ذریعے کرتے ہیں اسے ڈرامے کی اصطلاح میں مکالمہ کہا جاتا ہے مکالمہ ڈرامے کی روح ہے پلاٹ کی دلچسپی ، کردارنگاری کی اہمیت اور ڈرامے کا مجموعی تاثر اس کے تابع ہوتا ہے اسطرح مکالمے کی ایک قسم خود کلامی بھی ہوتی ہے جب کردار کسی جذباتی دبائو کے موقع پر یا کسی الجھن میں گرفتار ہو کر خود سے گفتگو کرنے لگتا ہے تو اسے خود کلامی کہتے ہیں۔۔
ڈرامے کا آغاز ایسا ہونا چاہیے کہ ناظرین کی توجے بے اختیار اپنی طرف مبذول کروا لے اس لئے ڈراما نگار کو چائیے کہ وہ ابتدائی مناظر اور خاص طور پر پہلے منظر کو اس قدر جاذب توجہ بنا کر پیش کرے کہ دیکھنے والے اس میں دلچسپی لینے پر مجبور ہو جائیں ڈرامے کے واقعات میں ایک معنوی ربط و تسلسل کا ہونا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے ہر واقعہ کے منطقی ردعمل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے تاکہ ناظرین کو کہانی میں کسی خلاء یا کمی کا احساس نہ ہواگر کہانی کے تمام واقعات زنجیر کی کڑیوں کی طرح آپس میں مربوط و مسلسل ہوں گے تو آغاز سے انجام تک ڈرامے میں روانی اور تسلسل قائم رہے گا قصے میں دلچسپی کا عنصر برقرار رکھنے اور ناظرین کو حیرت میں ڈالنے کے لئے کہانی میں جو غیر متوقع حالات پیدا کئے جاتے ہیں اسے ڈرامے کی اصطلاح میں کشمکش پیدا کرنا کہتے ہیں جب ڈراما نگار اپنے قصے کو ایک مخصوص نقطے سے شروع کرکے مراحل سے گزارتا ہوا ارتقاء کی آخری منزل تک لے آتا ہے تو اس مقام کو نقطہ عروج کہتے ہیں پلاٹ کے اعتبار سے یہ قصے کا سب سے اہم اور سب سے نازک موڑ ہوتا ہے انجام اور نقطہ عروج میں بہت ہی کم فاصلہ ہوتا ہے اس لئے کہ واقعاتی اور تاثراتی اعتبار سے ڈراما ناظرین کو نقطہ عروج میں جس منزل پر چھوڑتا ہے انجام کا مرحلہ دراصل اس کا منطقی نتیجہ ہے اگر ڈراما نگار نے نقطہ عروج کے مرحلے کو کامیابی سے طے کرلیا ہے تو ڈرامے کو اس کے انجام تک پہنچانا کچھ مشکل نہیں اور اس طرح پڑھنے اور دیکھنے والوں کی حیرت کا خاتمہ ہو جاتا ہے جس سے وہ دو چار رہتے ہیں۔