لندن (اصل میڈیا ڈیسک) مغربی دفاعی اتحادی نیٹو کے ستر برس مکمل ہونے پر لندن میں شروع ہونے والے اہم اجلاس سے قبل امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کے درمیان زبانی جنگ تیز ہو گئی ہے۔
فرانسیسی صدر ماکروں ں نے نیٹو سے صلاح و مشورہ کے بغیر امریکا اور ترکی کے ذریعے شمال مشرقی شام سے افواج ہٹانے پر نکتہ چینی کی تھی اور کہا تھا کہ اس اقدام سے انتہا پسند گروپ ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف حاصل کی گئی کامیابیوں کو نقصان پہنچے گا۔ ماکروں نے اس فیصلے کے بعد کہا تھا کہ نیٹو ‘ذہنی طورپر مفلوج‘ ہوچکا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ماکروں کے بیان پر ناراضگی ظاہر کی اور کہا، ”یہ ایک انتہائی احمقانہ بیان ہے، یہ انتہائی توہین آمیز بھی ہے اور نہایت خطرناک بھی۔ صدر ٹرمپ کا یہ بھی کہنا تھا کہ کسی بھی دوسرے ملک سے زیادہ نیٹو کی ضرورت فرانس کو ہے۔
تاہم ماکروں نے اپنی بات پر اصرار کرتے ہوئے کہا کہ مغربی دفاعی اتحاد اس بات پر سنجیدہ نہیں ہے کہ اسے اپنی توجہ اہم اسٹریٹیجک امور پر مرکوز کرنی چاہیے۔ ماکروں کا کہنا تھا، ”ہمارے لیے دہشت گردی کی وہی تشریح درست نہیں ہے جو دوسرے سمجھتے ہیں۔ جب میں ترکی کو دیکھتا ہوں تو پاتا ہوں کہ وہ انہیں لوگوں کے خلاف لڑ رہا ہے جنہوں نے داعش کے خلاف ہمارے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر جنگ کی تھی۔” فرانسیسی صدر کا کہنا تھا کہ یہ دراصل ایک اسٹریٹیجک معاملہ ہے۔
ماکروں نے تسلیم کیا کہ امریکا نے نیٹو کو برسوں تک کافی پیسہ دیا اور وہ خود بھی اس اتحاد کے لیے یورپ کی طرف سے مالی امداد میں اضافہ کے حق میں ہیں تاہم ان کا کہنا تھا، ”جب ہم نیٹو کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب صرف پیسہ نہیں ہوتا۔ پہلی قیمت جو ہم ادا کرتے ہیں وہ ہے اپنے فوجیوں کی زندگیاں۔”
جرمنی اور دیگر اتحادی ممالک نے ان دونو ں رہنماؤں کی تکرار پر ابھی تک کوئی تبصرہ نہیں کیا۔
صدر ٹرمپ نے آج کی میٹنگ میں نیٹو کے ان اتحادیوں کو ایک بار پھر تنقید کا نشانہ بنایا جو دفاع پر اپنی جی ڈی پی کا دو فیصد خرچ کرنے کے ہدف کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے جرمنی کی جانب خصوصی طور پر انگلی اٹھائی۔
یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ نیٹو کے بعض رکن ممالک کے درمیان اختلافات اتنے شدید ہو گئے ہیں کہ اس دفاعی اتحاد کا اتحاد ہی داؤ پر لگ گیا ہے۔ یہ صورتحال نہ صرف نیٹو کی ساکھ متاثر کر رہی ہے بلکہ اس سے بلاک کی خطرات سے نمٹنے کی عسکری صلاحیت بھی متاثر ہو رہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آیا رکن ممالک کے سربراہان دو دونوں تک جاری رہنے والے مختلف اجلاسوں اور ملاقاتوں میں باہمی اختلافات دور کر سکیں گے۔
اس دو روزہ سمٹ میں نیٹو کو درپیش اندرونی چیلنجز پر بالخصوص توجہ دی جائے گی۔ ان میں شمال مشرقی شام میں حالیہ پیش رفت، روس اور چین پر نیٹو کا موقف اور ترکی کے حوالے سے حکمت عملی کا تعین ہے۔ یہ تمام وہ معاملات ہیں، جن پر بلاک کے اٹھائیس رکن ملکوں میں اختلافات پائے جاتے ہیں۔
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے تاہم کہا، ”تمام اختلافات کے باوجود ہم اس سمٹ کے حوالے سے ‘قدرے پرامید‘ ہیں اور ہم یقیناً انہیں حل کرلیں گے۔”