آج کل میڈیا کی چکا چوند نے لوگوں خصوصا نوجوانوں کی عقل پر پردے ڈال دیئے ہیں ۔ ہر جوان ہر چمکتی ہوئی چیز کو سونا سمجھ کر اس کے پیچھے بھاگ رہا ہے۔ اپنی زندگی کے کئی قیمتی سال ان چیزوں کے حصول میں برباد کرتے ہیں تب انہیں اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ہیرے سمجھ کر پتھروں کے ڈھیر اکٹھے کرتے رہے ہیں ۔ ایسا ہی ہوتا ہے جب ہم محنت اور عقل و شعور کو طاق پر رکھتے ہوئے مشاورت سے دوری اختیار کرتے ہیں اور خود کو عقل کل سمجھتے ہوئے من مانی راہوں کا انتخاب کرتے ہیں ۔ ایک کہاوت ہے کہ “مشورہ دیوار سے بھی کیا ہو تو کبھی نہ کبھی کام آ جاتا ہے۔ ”
ایسے ہی غلط انتخاب کا شکار ہمارے نوجوان اپنی زندگی کے ساتھی کے انتخاب کے سلسلے میں بھی بہت زیادہ ہیں ۔ اس کا ثبوت آج کے دور میں طلاق کی بڑھتی ہوئی شرح بھی ہے ۔ شادی کے لیئے ساتھی کا انتخاب کرتے ہوئے کچھ چیزوں اور باتوں کا دھیان رکھنا لڑکے اور لڑکی دونوں کے لیئے بیحد اہم ہے۔
جیسا کہ آج کل میک اپ سے لپی تھپی اور اداوں سے لبریز لڑکیاں لڑکوں کو پاگل کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔ انہیں اگر سمجھایا جائے کہ برخوددار لڑکی کی اصل شکل دیکھ لو اسے گھر سنبھالنے کا کوئی سلیقہ ہے کہ نہیں ، تو جواب آئیگا میں بیوی لا رہا ہوں کوئی کام والی ماسی نہیں ۔ کہو کہ وہ کھانے پکانے کا کوئی شغف رکھتی ہیں تو شادی پر اتاولے جوان کا جواب آئے گا ، ارے بھئی میں بیوی لا رہا ہوں کوئی باورچن نہیں ۔
بیٹا سوچ لو لڑکی کے لچھن اچھے نہیں ہیں ، چھوڑیں اماں آپ تو ہر لڑکی میں کیڑے نکالتی رہتی ہیں۔ وہ ایسی نہیں ہے ۔۔۔۔
اور جب شادی کے چار دن کا بخار اترتا ہے تو اسی جوان کو بیوی میں ماسی بھی چاہیئے ، باورچن بھی چاہیئے ، دھوبن بھی چاہیئے ، نرس بھی چاہیئے، گھر کی نگران بھی چاہیئے ۔ وفادار بھی چاہیئے ، باکردار بھی چاہیئے، لیکن اب کیا ہو سکتا ہے “جب چڑیاں چگ گئیں کھیت” تو۔۔۔
اسی طرح لڑکیاں شادی کے بخار میں یہ سوچنا تک بھول جاتی ہیں کہ لڑکا کتنا پڑھا لکھا ہے ، کتنا ہنر مند ہے، کتنا کماتا ہے ، کتنا مہذب ہے، کتنا باکردار ہے ،
اس وقت وہ بس یہ سوچتی ہیں کہ یہ مجھے جھونپڑی میں بھی بھی رکھے گا تو میں رہ لونگی ، گھاس بھی کھلائے گا تو میں کھا لونگی ۔ بس اس کا پیار ہی میرے لیئے کافی ہے، کیونکہ اس وقت تک نہ انہوں نے جھونپڑی دیکھی ہوتی ہے اور نہ ہی گھاس کھائی ہوتی ہے بس خواب فروش شاعروں کی جذبات بھڑکاتی بازاری شاعری پر سر دھن دھن کر خود کو ہوا کے دوش پر سوار کیا ہوتا ہے ۔ ابا کی کمائی پر عیش کر کے انہیں ہر بات کھیل اور مذاق لگتی ہے۔ شادی کے پہلے ہی ہفتے میں جب خوابوں کے آسمان سے حقیت کی زمین پر گرائی جاتی ہیں تو دماغ ٹھکانے آتا ہے لیکن چہ معنی دارد ؟؟؟
بیشک عورت کا حسن اور سیرت دونوں ہی چیزیں بیحد اہم ہیں ۔ اگر اس میں اس کے سگھڑ پن اور خوش گفتاری کی خوبیاں بھی شامل ہو جائیں تو سونے پر سہاگہ ہے وگرنہ خالی خولی حسن والیاں رلتی کھلتی اور تباہ ہوتے ہی دیکھی ہیں ۔ سیانے کہتے ہیں کہ “روپ والی روئے اور مقدر والی کھائے”
عورت بدشکل بھی ہو تو مرد کیساتھ چل سکتی ہے ، کم پڑھی لکھی بھی چل جائے گی ، غریب بھی چل سکتی ہے ، پھوہڑ بھی شاید برداشت کر لی جائے۔ لیکن بدزبان اور بدکردار لڑکیاں چاہے جنت کی حور جیسی صورت بھی لے آئیں تب بھی چار ہی دن میں لات مار کر زندگی سے نکال دی جاتی ہیں ۔ اور ایسا ہی ہوتا ہے جب مرد کا صبر ختم ہو جاتا ہے ۔
جبکہ مرد کمانے کیساتھ حفاظت کرنے اور عزت دینے والا ہو تو گویا عام سی شکل کا مرد بھی اپنی بیوی کا ہیرو ہو سکتا ہے ۔ اور اگر وہ خوشگفتار اور مزاح بھی مزاج میں رکھتا ہو تو زندگی واقعی آسان ہو جاتی ہے ۔
لیکن شکی ، بدزبان ، نکھٹو اور بدکردار مرد کسی بھی لڑکی کی زندگی میں ایک بددعا کی طرح داخل ہوتا ہے اور اسکے زندگی کے سارے رنگ ، سارے ہنر چاٹ جاتا ہے۔
مرد اور عورت کو اپنی زندگی کے ساتھی میں حقیقت پسندانہ خوبیوں اور خواص کو نظر میں رکھنا چاہیئے ۔ تاکہ ان کی زندگی کے ساتھی میں انہیں ایک بہترین دوست بھی میسر آ سکے۔