قائد اعظم کی پاکستان میں اسلامی نظام کے لیے کوششیں اور ہمارے سیاستدان

Quaid-e-Azam

Quaid-e-Azam

تحریر : میر افسر امان

ظاہر ہے پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا۔ برعظیم کے عوام سے قائد اعظم محمد علی جناح نے پاکستان کے حصول کے بعد مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کا نظام ِحکومت قائم کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ پوری تحریک پاکستان میںقائداعظم نے قرآن و حدیث کے حوالے دے دے کر بر عظیم کے مسلمانوںکو اُبھارہ تھا۔پھر پاکستان کا مطلب کیا ”لا الہ الا اللہ” کے پاکیزہ نعرے پر برعظیم کے عوام نے قائد اعظم کی قیادت میں پر امن ، دلیل اور دوقومی نظریہ کی بنیاد پرہندوئوں اور انگریزوںکی سازشیوںکے باوجود اسلامی دنیا کی پہلی نظریاتی عظیم ریاست پاکستان حاصل کی تھی۔ برعظیم کے جن صوبوں میں پاکستان نہیں بننا تھا انہوں نے بھی یہ جانتے ہوئے کہ تقسیم کے بعد انہیں متعصب ہندوئوں کے ظلم و ستم سہنے پڑھیں گے۔ پھر بھی اسلام سے محبت کے ناتے انہوں نے یہ ایک بہت بڑا رسک لیا تھا۔

اسی وجہ سے اب دہشت گرد قوم پرست موددی کی حکومت میںمتعصب ہندوئوں نے بھارت کے مسلمانوں کا جینا دوبھر کر دیا گیا ہے۔گائے کے جھوٹے تقدس کے نام پر مسلمانوں کو شہید کیا جارہا ہے۔ہندوئوں کے ہجوم کسی مسلمان کو گھیر لیتے ہیں ۔ اس مظلوم کو جے شری رام کے نعرے لگانے پر مجبور کرتے ہیں انکار کی شکل میں اسے ڈنڈوں سے ما رمار کر شہید کر دیتے ہیں۔ گائے کا گوشت کھانے کے شک میں کسی کو شہید کر دیتے ہیں۔مسلمانوں کو تعنے دیتے ہیں کہ بھارت میں ہند وبن کے رہو ورنہ پاکستان چلے جائو۔ بھارتی وزیر اعظم مودی کی پالتودہشت گرد تنظیم آر ایس ایس کے مرکزی رہنما نے دھمکی ہے کہ ٢٠٢٠ء تک بھارت سے مسلمانوں کو یا تو ختم کر دیا جائے گا یہ وہ ہندو بن کر بھارت میں رہ سکیں گے۔

بھارت میں دہشت گردمودی کی حکومت کی ایما پر، انتہا پسند ، قوم پرست اور دہشت گرد ،خود بم دھماکے کرتے ہیں ۔ مسلمان نوجوانوں پر الزام لگا کر اور جھوٹے مقدمے بنا کر گرفتار کر لیتے ہیں۔ہزاروں مسلمان نوجوانوں کو نام نہاد دہشت گردی کے شک میں جیلوں میں بند کر دیتے ہیں۔ سالوں جیل میںبند رہنے کے باوجود متعصب عدالتیں ان کا فیصلہ نہیں کرتیں۔ ان واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ قائد اعظم نے صحیح قدم اُٹھا کر برعظیم کے مسلمانوں کو ایک علیحدہ وطن پاکستان دلایا تھا۔ اگر پاکستان کو مدینہ کی اسلامی ریاست بنا دیا جاتا تو پاکستان میں خوش حالی ہوتی اور مضبوط پاکستان بھارت میں رہ جانے والے مسلمانوں کا پشتی بان بھی ہو تا۔ مگر افسو س صد افسوس کے قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے کھوٹے سکے یہ کام نہ کر سکے۔

پاکستان میں اسلام نظام حکومت کے لیے قائد اعظم نے اپنی زندگی میں ہی اسلامی آئین اور اسلامی فقہ کی تدوین جدیدکے لیے ایک ادارہ ریکنسٹریکشن آف اسلامک تھاٹ قائم کیا تھا۔ اس ادارے کا سربراہ نو مسلم علامہ محمد اسد کو لگایا تھا۔ علامہ نے اس پرکافی کام کیاتھا۔ساتھ ہی ساتھ قائد اعظم نے مولانامودددی سے کہا آئیں اور حکومت پاکستان اورعوام کوبتائیں کہ پاکستان میں کس طرح سے اسلامی نظام حکومت قائم ہو گا۔ مولاناموددوی نے ریڈیو پاکستان سے اپنی تقریروں کے ذریعے حکومت اور عوام کو آگاہ کیا ،کہ آج کل کے کے جدیدجمہوری دور میں کیسے بتدریج اسلامی نظام حکومت قائم ہو سکتا ہے۔ یہ تقریریں ابھی بھی ریڈیو پاکستان کے ریکارڈ میں موجود ہیں۔ یہ تقریریں کتابی شکل میںبھی محفوظ ہیں۔ اللہ نے قائد اعظم کو ١٩٤٨ء میں اپنے پاس بلا لیا۔بیروکریٹ نے علامہ اسدکو اسلامی آئین اور فقہ کی تدوین جدید سے روک کر بیرون ملک سفیر لگا دیا۔

بعد میں اس پر کیے گئے کام کے سارے ریکارڈ کو ایک قادیانی بیروکریٹ نے آگ لگا دی۔قائد اعظم کی مسلم لیگ کے کھوٹے سکے اس وقت اقتدار میں تھے جنہوں اس کیس پر تحقیق کرنے کے بجائے پر مٹی ڈال دی۔ اس سارے قصے کواسلام کے ایک شیدائے، ٹی انیکر ،صحافی اور ریٹائرڈ بیروکریٹ ،اوریا مقبول جان نے میڈیا میں اُٹھایا۔ وہ اس طرح کہ اوریا مقبول جان کو پاکستان کے پرانے ریکارڈ سے قائد اعظم کا ایک خط اُس وقت کی وزارت مالیات کے نام سے ملا۔ قائد اعظم نے خود اس خط کے ذریعے ہدایت دی تھیں کہ اس ادارے کے لیے فنڈ مختص کیے جائیں مگر ایک قادیانی نے اس خط کو اپنے پاس روکے رکھا۔قائد اعظم کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے گھوٹے سکوں نے کہنا شروع کیا کہ اس جدید دور میں اسلام کا چودہ سول سالہ پرانا نظامِ ِحکومت نہیں چل سکتا۔مولانا موددی اور ، قائد اعظم کے ساتھی، جس نے قائد اعظم کا جنازہ بھی پڑھایا تھا، مولانا شبیر احمد عثمانی اور دین پسند طبقوں کو ملا کر اسلامی نظام حکومت کی پہلی سیڑھی اسلامی آئین کے لیے جاری اپنی کوششیں تیز سے تیز تر کر دیا۔اسی کوشش کے دوران مولانا موددی جو جماعت اسلامی کے امیر بھی تھے پرپاکستان کی مخالفت کا الزام لگا کرجیل میں بند کر دیا۔جس مسلم لیگ نے مسلمانان برعظیم سے پاکستان کے حصول کے بعداس میں مدینہ کی اسلامی ریاست کا نظامِ حکومت قائم کرنا تھا، اس نے اپنے اصل مقصد سے روگردانی کی۔قادیانی، کیمونسٹوں اور جاگیرداروں کے گٹھ جوڑ نے اسلام کے عملی نفاذ میں روڑے اٹکائے۔

کیمونسٹوں اورقادیانیوںنے پاکستان کے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو ایک سازش کے تحت راولپنڈی لیاقت باغ میں شہید کر دیا۔ فوج کے خلاف بغاوت کی جو راولپنڈی سازش کیس سے مشہور ہوئی۔ انگریزوں نے اپنے خود کاشہ پودے قادیانیوں کو حکومت کے بڑھے بڑھے عہدوں پر لگایا تھا۔ وہ پاکستانی بیروکریسی میں بھی موجود تھے ۔ اُوپربتایاگیا ہے کہ اسلامی کے نفاذ کے لیے علامہ محمد اسد کے ریکارڈکو ایک قادیانی پیروکریٹ نے نذر آتش کرا دیا۔ پھر پاکستان میں پہلے ڈکٹیٹر ایوب خان نے اقتدار کی کرسی پرقبضہ کر اپنے بیرونی آقائوں کو خوش کرنے کے لیے مسلمانوں کے عائلی قانون کو تبدیل کر دیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کی بنیاد اسلام اور قائد اعظم کے وژن سے بغاوت کر کے سوشلزم کو رائج کرنے کی کوشش کی ۔روٹی ،کپڑا اور مکان کے پر فریب نعرہ لگا کر عوام کو بے وقوف بنایا۔ بھٹو کے بعد ان کی بیٹی بے نظیر بھٹو نے بھی اسی پر عمل کیا۔ اور اب بیرون ملک پرورش پانے والا مغرب زدہ بلاول زرداری جس نے تعلیم بھی مغرب سے حاصل کی ہے جو اسلام سے نابلد ہے میدان سیاست میں آ دھمکا ہے۔ جسے موروثیت میں پیپلز پارٹی کی قیادت مل گئی۔

پہلے یہ قیادت ا یک جعلی وصیت نامے سے آصف علی زردادی کو ملی اور اب یہ میراث بلاول زرداری کے حصہ میں آئی۔ یہ بھی ملک میںاسلام کے مخالف نظام سوشلزم اور لبرازم کا پرچارک ہے۔ ڈکٹیٹر م پرویز مشرف نے بھی اسلام سے انحراف کر امریکا کو خوش کرنے روشن خیال پاکستان کے نام سے خرافات، نصا ب ِتعلیم سے جہاد کے متعلق مواد نکال دیا۔ نواز شریف جو پاکستان کے تین باروزیراعظم رہے۔ وہ بھی قائد اعظم کے وژن کے باغی بن کر بیرونی آقائوں کو خوش کرتے رہے اورقائد عظم کی مخالف سوچ کو پروان چڑایا۔ قائد اعظم نے دو قومی نظریہ یعنی نظریہ پاکستان کی تشریع کرتے ہوئے ٢٣ مارچ ١٩٤٠ء میں لاہور میں فرمایا”ہم مسلمان ہندوئوں سے علیحدہ قوم ہیں،ہمارا کلچر، ہماری ثقافت ، ہماری تاریخ،ہمارا کھانا پینا ہمارا معاشرہ ان سے یک سر مختلف ہے”اس کی نفی کرتے ہوئے اقتدار کے زعم میں مبتلا نواز شریف نے اسی لاہور میں١٤اگست ٢٠١١ء کو فرماتے ہیں ”ہم مسلمان اورہندو ایک قوم ہیں۔ہمارا ایک ہی کلچر۔ایک ہی ثقافت ہے۔ہم کھانا بھی ایک جیسا کھاتے ہیں۔صرف درمیان میں ایک سرحد فرق ہے”کشمیر کے کور ایشو کو ایک طرف رکھ کر آلو پیاز کی تجارت کی۔

صاحبو! مثل مدینہ ریاست جو اللہ نے برعظیم کے مسلمانوں کے وعدے یعنی پاکستان کا مطلب کیا”لا الہ الا اللہ” کے جواب میں تشتری میں رکھ کر پیش کی تھی ۔ جب بھی اللہ کے احکامات پر چل کر اس کے بندے اس سے کچھ مانگتے ہیں تو اللہ اپنی شان کریمی کے تحت عطا کر دیتا ہے۔ اور اگر انسان اس سے وعدہ کرکے عمل نہیں کرتا تو سزا بھی دیتا ہے۔مثل ِ مدینہ مملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کی حفاظت بھی اللہ ہی کر رہا ہے ۔کیا ہمارے سیاستدانوں نے اللہ سے کیے وعدے کو نبھا کر پاکستان میں اللہ کے نظام کو قائم کی؟جواب نفی میں ہے۔ کیاسیاست دانوں خاص کر نواز شریف کے اقتدار سے ہٹنے کو اسی تناظر میں رکھیں تو پھر ”مجھے کیوں نکالا کا جواب بنتا ہے نا!کہ تمھیںاللہ نے نکالا”۔ وجہ یہ ہے کہ سارے سیاستدانوں نے قائد اعظم کے وژن کی کھل کر مخالفت کی۔کسی نے مسلمانوں کا عائلی قوانین کو مارشل لا لگا کر مغرب کی مرضی کے مطابق کیا تبدیل کیا۔ کسی نے اللہ کے نظام کے مقابل سیکولر اور سوشلزم کو پیش کیا۔ کسی نے دوقومی نظریہ کی اعلانیہ مخالف کی۔ہر کسی نے ایک دوسرے سے بڑھ کر مدینہ کی اسلامی ریاست بنانے کے مخالفت کی۔اب نیا حکمران عمران خان کرپشن کے خاتمے،علامہ شیخ محمد اقبال کے خواب اور قائد اعظم کے وژن کے مطابق پاکستان میں مدینہ کی اسلامی ریاست کے منشور کے ساتھ حکمران بنا ہے۔٧٢ سالوں سے اسلامی نظام حکومت کو ترستے پاکستانی عوام دیکھیں گے کہ یہ اپنے وعدہ پورا کرتا ہے یا اقتدار کے نشے میں اپنے منشور پر عمل نہیں کرتا اور مکافات عمل کا شکار بنتا ہے۔اللہ پاکستان میں اسلام کا بابرکت اسلامی نظام حکومت رائج کر دے آمین۔

Mir Afsar Aman

Mir Afsar Aman

تحریر : میر افسر امان