عراق تیل پیدا کرنے والا دنیا کا ایک اہم ترین ملک ہے جو ایک چوتھائی تیل کی عالمی پیدواری ضرورت کو پورا کرتا ہے۔ بے روزگاری، مہنگائی اور سیاسی عدم استحکام کے سبب عراق میں پُر تشدد مظاہروں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے۔اب تک عراق میں ایران مخالف مظاہرین تین ایرانی قونصل خانوں کو نذرآتش کرچکے ہیں جبکہ احتجاجی مظاہروں نے عراقی وزیر اعظم عادل عبدالمہدی کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا، گو کہ اس سے قبل عراقی وزیر اعظم و اسپیکر کے عراقی عوام کو یقین دلایا تھا کہ ان کے مطالبات تسلیم کئے جائیں گے ان کے مسائل حل کئے جائیں گے، لیکن بدترین معاشی بحران میں گھیرا عراق اس وقت بدترین سیاسی عدم استحکام کا شکار ہوچکا ہے۔ حالاں کہ عراق تیل سے مالامال ملک ہے اور وہ تیل درآمد کرنے والے ممالک کی تنظیم ’اوپیک‘ کاکتروڈ پیدا کرنے والا دوسرا بڑا ملک بھی ہے، لیکن اس کے باوجود عراق میں عوام کی جانب سے بے روزگاری، معاشی بحران اور بیرونی ممالک کی مداخلت اور جنگجو ملیشیاؤں کی موجودگی کے سبب عراقی عوام کو ریلیف نہیں مل پارہا۔ عراقی مظاہرین نے عراق میں مداخلت میں ایران کو ذمے دار قرار دیا ہے اور پُر تشدد مظاہروں میں اب تک، کربلا، بصرہ اور نجف کے قونصل خانوں سمیت ایرانی مذہبی رہنماؤں کی تصاویر کو بھی نذر آتش کرچکے ہیں، جب کہ ایران ان مظاہرین کو شر پسند قرار دیتے ہوئے امریکا کی شہ قرار دیتا ہے کہ بعض عرب ممالک بھی ان مظاہروں کو ہّوا دے رہے ہیں۔ ایران، امریکا کو انتباہ کرچکا ہے کہ وہ عراق میں مداخلت سے باز آجائے۔ امریکا نے عراق میں مظاہرین کے خلاف ریاست کی جانب سے طاقت کے استعمال پر احتجاج کیا ہے، امریکا کے مشرق وسطیٰ کے مشیر ڈیوڈ شنکر کا کہنا ہے کہ عراق کے شہر ناصریہ میں مظاہرین کا قتل چونکا دینے والا ہے، امریکی سفیر نے مطالبہ کیا کہ عراقی حکومت اس کی تحقیقات کرائے اور پرامن مظاہرین پر تشدد کرنے والوں کو کٹہرے میں لائے۔ایک طرف ایران، امریکا پر عراق میں پر تشدد مظاہروں میں الزام عائد کرتا ہے تو دوسری جانب امریکا، عراق میں ایرانی مداخلت پر اعتراض کرتے ہوئے تمام حالات کی ذمہ داری ایران پر عائد کرتا ہے۔ امریکا کا مزید کہنا ہے ”قاسم سلیمانی کی موجودگی ظاہر کرتی ہے کہ ایران ایک مرتبہ پھر عراق میں مداخلت کررہا ہے۔ جب کہ تہران ہمسایہ ملک میں کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے۔“ جب کہ آیت اللہ خامنہ اِی نے اپنے بیان میں کہا ”امریکہ اور چند مغربی ملک اور خلیج کی ریاستیں (عراق اور لبنان میں) مظاہروں اور افراتفری پیدا کرنے کی خفیہ حمایت اور اس کی مالی معاونت کر رہے ہیں“۔ امام سید علی صفی نے عراقی چوٹی کے رہنما، آیت اللہ علی سیستانی کے حوالے سے عراقیوں سے کہا کہ بیرون ملک کی کوئی بھی طاقت انہیں یہ نہیں کہہ سکتی کہ انھیں کیا کرنا ہے۔ صفی نے زور دے کر کہا کہ ”کوئی فرد، گروپ، دھڑا، یا علاقائی یا بین الاقوامی طاقت عراقی عوام کی مرضی کو ہائی جیک نہیں کر سکتی اور ان پر اپنی مرضی مسلط نہیں کر سکتی ہے“۔
گذشتہ دو ماہ سے جاری ہنگاموں میں اب تک 400سے زاید مظاہرین سیکورٹی فورسز کی کاروائی کے نتیجے میں جاں بحق ہوچکے ہیں۔ لیکن عراقی مظاہرین کے احتجاج میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی یہاں تک کہ وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ ایک برس تک وزرات ِ اعظمیٰ کے عہدے پر رہنے کے بعد حیران کن طور پر آیت اللہ علی سیستانی کی مداخلت کے بعد اپنے عہدے سے استعفیٰ دیا۔ اس وقت حریف جماعتوں کے ساتھ مذاکرات کئے جارہے ہیں، واضح رہے کہ عراقی پارلیمان نے ر وزیرِ اعظم عادل عبدالمہدی کا استعفیٰ منظور کیا تھا اور اسپیکر نے صدر برام صالح کو نیا وزیراعظم نامزد کرنے کی ہدایت دی تھی۔ لیکن عراقی مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ ایسے وزیر اعظم کا تقرر کیا جائے جو تمام فریقوں کے لئے قابل قبول ہو۔ تھنک ٹینک کارنیگ مڈل ایسٹ سینٹر کے مطابق بھی سیاسی جماعتیں کا مطالبہ ہے کہ نئے وزیرِ اعظم کے لیے ایسے شخص کا انتخاب کیا جائے جو نہ صرف طاقت کے مراکز سمجھے جانے والے حلقوں کو قابل قبول ہو بلکہ مظاہرین بھی اسے قبول کرنے پر تیار ہوں۔اُن کے بقول، نئے وزیرِ اعظم کے انتخاب کے لیے ایسے امیدوار کا انتخاب بھی ضروری ہوگا جو عراق کے اتحادی امریکہ اور ایران کو بھی قبول ہو۔ایران نے امریکی افواج کی عراق واپسی کے بعد داعش کے خاتمے کے لئے جنگجو ملیشیا اور عراقی سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر سیاسی توازن برقرار رکھنے کے لئے بڑی سرمایہ کاری کی ہے، ایران کے طاقتور فوجی دستے پاسدارن انقلاب کے سربراہ قاسم سیلمانی بھی مذاکرات کے لئے عراق پہنچے، لیکن عراقی عوام کے پر تشدد مظاہروں میں عراقی عدم استحکام و مسائل کی بنیادی وجہ ایران کو قرار دیئے جانے کے سبب اشتعال میں کمی واقع نہیں ہو رہی۔قابل ذکر یہ بھی ہے کہ ایران خود بھی بار بار اٹھنے والے مظاہروں کی زد میں ہے۔
ایرانی عوام میں بھی بے روزگاری، مہنگائی اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پرتشدد مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں۔ ایران اس وقت امریکی پابندیوں کا سامنا کررہا ہے اور امریکا کی جانب سے ایٹمی معاہدے کی دست برداری کے بعد نئے معاہدے کے لئے دباؤ کو ایران مسترد کرچکا ہے۔ ایران، عالمی پابندیوں کے خاتمے کے بعد تیل سمیت دیگر مصنوعات کو قانونی طور پر فروخت کرسکتا تھا لیکن امریکی صدر نے اپنے سابق صدر اوبامہ کی جانب سے ایران کے ساتھ معاہدے کو ناقابل قبول قرار دیتے ہوئے ایران پر دباؤ بڑھایا کہ وہ امریکا کے ساتھ نیا معاہدہ کرے۔ لیکن ایران نے امریکی مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کردیئے تھے جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں اضافہ ہوا اور امریکا نے ایران کی جانب سے مملکت شام بھیجے جانے والے تیل کی آئل ٹینکرز کو روکنے کے لئے آبنائے ہرمز میں جنگی بیڑا کھڑا کردیا۔ لیکن ایران نے امریکی پابندیوں کے جواب میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات پر دباؤ بڑھا دیا کہ اگر ایران تیل درآمد نہیں کرسکتا تو دوسرا ملک بھی با آسانی تیل درآمد نہیں کرسکے گا۔
ایران پر الزامات لگے کہ اس نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے آئل ٹینکر کو نقصان پہنچایا اور سعودی ائل تنصیبات آرمکو پر ڈرون حملے کئے جس سے سعودی آئل کی پیدوار نصف ہوئی اور تیل کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ایران نے امریکا سمیت اُن تمام ممالک کو منتبہ کیا کہ اگر ایٹمی معاہدے پر عمل درآمد نہیں کیا جاتا تو ایران ایٹمی افزدوگی میں اضافہ کردے گا، یہاں تک کہ امریکا و دیگر ممالک کی تمام کوشش و دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے ایران نے بھی ایٹمی معاہدہ ختم کردیا اور اپنے ایٹمی پروگرام میں تابکاری مواد کی افزدوگی میں اضافہ کردیا، قم کے زیرِ زمین فردو جوہری پلانٹ میں نصب سینٹری فیوجز کو یورینیم ہیکسافلورائیڈ (یو ایف 6) گیس کی فراہمی شروع کر دی گئی ہے۔ایران کے صدر حسن روحانی نے اس اقدام کا اعلان کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ ایران کی جانب سے 2015 میں عالمی طاقتوں سے کیے گئے جوہری معاہدے میں کیے گئے وعدوں کی پاسداری نہ کرنے کے سلسلے میں چوتھا قدم ہے۔
اس معاہدے میں ایران کو 2031 تک ری ایکٹر تہران کے مقام پر یورینیم کی افزودگی سے روکا گیا تھا۔امریکہ کی جانب سے گذشتہ سال مئی میں معاہدے سے دستبرداری اور اقتصادی پابندیوں کے نفاذ کے بعد ایران کو اپنے وعدوں کی مرحلہ وار معطلی کا سلسلہ شروع کرنے پر مجبور کر دیا گیا تھا۔ایران کی جوہری توانائی تنظیم (اے ای آئی او) کے ڈائریکٹر علی اکبر صالحی نے کہا تھا کہ تہران نے فرودو میں یورینیم کو پانچ فیصد تک افزودہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا لیکن یہ عمل ’فوری طور پر نہیں‘ ہو گا تاہم ’مستحکم آئسوٹوپس‘ کی افزودگی شروع ہونے کی امید ہے۔
ٰٓایران نے عراق میں دہشت گرد تنظیم داعش کے خاتمے کا دعویٰ کرتے ہوئے عراق میں اپنے اثر رسوخ میں اضافہ کیا تھا اور عراق میں ایران حمایت یافتہ حکومت کی تشکیل دی تھی۔ لیکن بتدریج عراق بین الاقوامی پراکسی وار کا حصہ بننے لگا، جس کی بنا پر عراقی پارلیمنٹ نے غیر ملکی جنگجوملیشیا ء سمیت امریکی افواج کو عراق سے نکالنے کا مطالبہ کردیا۔ ایران نے عراق سے اپنی حمایت یافتہ جنگجو ملیشیا کو نکالنے سے انکار کردیا تھا کہ اگر یہ ملیشیا واپس ہوئی تو داعش کی واپسی کا خطرہ موجود ہے، داعش دوبارہ عراق میں داخل ہوسکتی ہے۔ تاہم عراق میں اس وقت ایران و امریکا دونوں موجود ہیں، عراق کی منظوری کے بغیر امریکی دستے شام میں عراقی کی سرحدوں سے داخل ہوئے، جس پر عراقی حکومت نے بیان دیا کہ امریکی دستے عراق کی مرضی سے شام میں داخل نہیں ہوئے۔ دوسری جانب ترکی، کرد ملیشیا جنگجو گروپ کے خلاف جنگی کاروائی کررہا ہے، جو ایک آزاد کرد مملکت کے لئے ترکی کے خلاف بغاوت کرچکے ہیں، ترکی نے شام کی حدود میں 25لاکھ سے زائد مہاجرین کے لئے سیف زون بنانے کے لئے آپریشن شروع کیا تھا، اس سلسلے میں پہلے امریکا کے ساتھ کرد باغیوں کے واپسی کے لئے جنگ بندی کا عارضی معاہدہ کیا، جس کے بعد روس نے اس معاہدے کی توثیق کے لئے ترکی کے ساتھ دوبارہ معاہدہ کیا۔ دلچسپ صورتحال یہ ہے کہ دونوں معاہدوں میں شام کی حکومت شامل نہیں تھی، جبکہ تمام آپریشن شام کی سرزمین پر کیا جارہا تھا۔
عراق اس آپریشن کے نتیجے میں بھی متاثر ہوا ہے اور اس کے علاوہ داعش کی وجہ سے عراق کو پہلے ہی ناقابل تلافی نقصان پہنچ چکا ہے۔ عراق کو اپنے پیروں پر کھڑا ہونے اور عراقی عوام کو معاشی مشکلات سے نکالنے کے لئے تیل کی پیدوار ہی کافی ہے لیکن عراق میں بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے عراق معاشی بحران سے نکلنے میں ناکام ہورہا ہے۔ عراقی عوام کی جانب سے ایران مخالف مظاہروں و احتجاج کے ساتھ قونصل خانوں کو جلائے جانے جسے واقعات نے ایران کے لئے مشکلات کھڑی کردی ہیں کیونکہ ایران، عراق میں سیاسی اثر رسوخ کے ساتھ ساتھ خطے کے دیگر ممالک میں مداخلت کے لئے عراقی سرزمین پر کافی انحصار کرتا ہے، خاص کر امریکا کی جانب سے پابندیوں کے بعد امریکی مفادات کو نقصان پہنچانے کی دھمکیوں میں عراق میں امریکی بیس کیمپ و فوجی دستے ایران کے نشانے پر ہیں، عراق میں امریکی موجودگی اور ایرانی فوج کے نشانے پر ہونے کے سبب امریکا، براہ راست ایران کے خلاف کسی قسم کی عسکری کاروائی کرنے میں تامل برتتا آرہا ہے۔ ایران بھی امریکا اس کمزوری کا پورا فائدہ اٹھا رہا ہے اور امریکی دباؤ کو مسترد کرتا آیا ہے۔ تاہم ایران کے بعد عراق میں ایرانی مذہبی رہنماؤں کے خلاف احتجاج نے ایران داخلی انتشار کو روکنے کے لئے سخت اقدامات کرنے پر مجبور ہوا۔عراق ایران کا مفادات کا اہم مرکز ہے۔ اہم مذہبی مقامات کی وجہ سے ایران عراقی سرزمین میں اپنا اثر رسوخ بڑھانے کی کئی عرصے سے مسلسل کوشش کرتا رہا ہے۔ اس ضمن میں سابق صدر صدام حسین کے ساتھ عراق و ایران کی دس برس کی جنگ نے دونوں ممالک کو بہت متاثر کیا تھا، لیکن اس لا حاصل جنگ میں لاکھوں افراد کی اموات و زخمی ہونے کے باوجود عراق و ایران کے تعلقات میں کشیدگی خمینی انقلاب کے بعدمزید بڑھتی چلی گئی۔
عراق ایرانی مصنوعات کا اہم صارف ہے۔ سال 2018ء میں دونوں ملکوں کے مابین 13 ارب ڈالر مالیت کی تجارت ہوئی تھی۔چند ماہ قبل دورہ بغداد کے دوران ایرانی وزیر خارجہ محمد جواد ظریف نے کہا تھا کہ انہیں توقع ہے کہ 2019ء میں تجارت فروغ پا کر 20 ارب ڈالر تک پہنچ جائے گی۔عراق کے دیگر علاقوں میں عراقی مظاہرین نے ملک میں ایرانی حمایت یافتہ پراکسی ملیشیاؤں کے خلاف احتجاج کے سلسلے کو بڑھانا شروع کیا ہوا ہے، جبکہ ایران کے تسلط کی علامتوں کو نذر آتش بھی کیا، جن میں ایران کے رہبر اعلیٰ اور ایران کے اعلیٰ علاقائی کمانڈر، جنرل قاسم سلیمانی شامل ہیں۔ایران نے اپنے شہریوں کو چوکنا کیا تھا کہ وہ عراق کے سفر سے احتراز کریں خاص طور پر ایسے وقت میں جب احتجاجی مظاہرے نجف اور کربلہ میں ملک کی متبرک زیارات کی جانب پھیل چکے ہیں۔صدر صالح کا کہنا ہے کہ عراق پہلے ہی تباہ حالی، خون خرابے اور دہشت گردی سے متاثر ہے۔ البتہ انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ بغداد کے ’صدر سٹی‘ میں مظاہرین کے ساتھ ”ضرورت سے زیادہ سختی برتی گئی۔“ نیز عوامی احتجاج کی کوریج روکنے کے لئے عراقی حکومت نے امریکی خبررساں ادارہ الحرہ اور سعودی العربیہ سمیت متعدد نیوز چینل بند کئے۔ ان دو کے علاوہ مقامی سطح پر چلائے جانے والے متعدد خبررساں ادارے خاص کر ”دجلہ”، ”الشرقیہٗ”، ”این آرٹی”، ”الرشید”، ”الفوجہ”، ”ھنا بغداد” اور ”اے این بی” کے دفاتر بھی سیل کئے چکے ہیں۔ اس وقت سیاسی قوتیں مستعفی ہونے والے وزیراعظم کا متبادل لانے کی کوششوں میں مصروف ہیں، جس میں عراقی پارلیمنٹ نئے انتخابی قوانین کے ذریعے اراکین کی تعداد کم و نمائندگی کی وسعت دینے کی بھی کوشش کررہی ہے۔ عراق میں فرقہ وارنہ کشیدگی کا رخ یکدم تبدیل ہوچکا ہے۔ ایرانی قونصل خانوں پر حملوں میں فرقہ وارانہ رنگ نظر نہیں آیا کیونکہ ان مظاہروں کی حمایت حیران کن طور پر چوٹی کے مذہبی رہنما آیت اللہ علی سیستانی کررہے ہیں۔ مظاہرین فرقہ وارانہ بنیادوں پر عہدوں کی تقسیم کے نظام کا خاتمہ چاہتے ہیں، جب کہ مظاہرین کی بڑی تعداد موجود پارلیمانی نظام کو عراق کے لئے نامناسب قرار دیتے ہوئے خاتمے کے مطالبات کررہے ہیں۔
یکم اکتوبر سے جاری پر تشدد احتجاج جہاں بے روزگاری و مہنگائی کے خلاف شروع ہوئے تھے اب ان مطالبات کا دائرہ وسیع ہوتا ہوا سیاسی نظام کی مکمل تبدیلی و اصلاح میں تبدیل ہوچکا ہے۔ اس سیاسی نظام کی بنیاد 2003 میں صدام حسین کی حکومت کے خاتمے کے بعد امریکا نے رکھی تھی۔مظاہرین کا ایک بنیادی مطالبہ ملک میں سیاسی طبقے کی تبدیلی ہے جس پر بدعنوانی اور ملکی دولت اڑا دینے کا الزام ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مسلسل تباہ حالی کے شکار عراق کو مزید تباہی سے بچانے کے لئے عالمی قوتیں عراقی سرزمین کو اپنی پراکسی جنگ کا حصہ بنانے سے گریز کی راہ اختیار کریں، عراقی عوام مسلسل کئی عشروں سے حالت جنگ میں ہیں، عراقی عوام مسلسل جنگ، فرقہ وارنہ خانہ جنگیوں، داعش کی تباہ کاریوں، عالمی طاقتوں کے جنگی اکھاڑوں سے تنگ آچکے ہیں۔ عراق اپنے قدرتی وسائل عوام پر استعمال کرنے میں بری طرح ناکام نظر آتا ہے،ان حالات میں عوام بے زاری و اشتعال کا پیدا ہونا ایک فطری امر ہے۔ ایران، امریکا سمیت تمام غیر ملکیوں کو عراق کے سیاسی نظام میں مداخلت کے بجائے عراقی عوام کو جنگ کی تباہ کاریوں سے نکالنے میں مدد کرنی چاہیے۔ ایران کی جانب سے امریکا پر الزامات اورا مریکا کی جانب سے ایران پر الزامات اس امر کو ظاہر کرتے ہیں کہ عراق میں بڑھتی بے چینی و سیاسی عدم استحکام کے اسباب میں ان ممالک کا کلیدی کردار ہوسکتا ہے، کیونکہ دونوں ممالک کے فروعی مفادات عراق سے وابستہ ہیں، ان حالات میں کہ جب امریکا ایک جھوٹی سی آئی اے رپورٹ کے ساتھ عراق پر حملہ آور ہوا تھا اور خطے کو بری جنگ میں الجھا چکا ہے، امریکا کو خطے میں مزید انتشار و عدم استحکام پیدا کرنے کی تمام کوششوں سے ہاتھ اٹھا لینا چاہے، ایران کے ساتھ محاذ آرائی میں عراق کی آڑ لینے سے عراقی عوام مزید تباہی کا شکار ہو رہی ہے۔ مذہبی مقامات کو پہلے ہی داعش اپنے انتہا پسندانہ عقائد کی وجہ سے نقصان پہنچا چکی ہے جب کہ فرقہ وارانہ خانہ جنگیوں اور بدترین دہشت گردی کے واقعات نے عراق کے تمام اقدار کو مسخ کردیا ہے۔
عراق آنے والے زایرین پہلے ہی انتہا پسندی کے سبب ہلاکتوں کے نتیجے میں ناقابل تلافی نقصان اٹھا چکے ہیں، قدرتی وسائل سے ثمرات حاصل کرنے میں انہیں دشواریوں کی وجہ سے بدترین احتجاج پر مجبور کردیا ہے اس لئے انسانیت کے ناطے یہ انسان دوست ممالک کی بھی ذمہ داری بنتی ہے کہ عراق میں پائی جانے والی بے چینی کے خاتمے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کریں، بیرونی مداخلتوں کی وجہ سے جنگ سے متاثرہ ممالک میں ترقی کی رائیں مسدود ہوجاتی ہیں اور انسانی المیہ و بحران جنم لیتا ہے۔ عراق اپنے بدترین دور سے نکلنے کے لئے بیرونی مداخلت کے خاتمے کا منتظر ہے اور بیرونی مداخلت کار، خواہ کسی بھی شکل میں ہوں انہیں عراق میں امن قائم رکھنے اور عوام کو پریشانی و مشکلات سے نکالنے کے لئے اپنا مثبت کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر فروعی مفادات کے تحت بیرونی مداخلتوں کا خاتمہ و واپسی نہیں ہوگی تو احتجاج و مظاہروں کا یہ سلسلہ کسی ایک جگہ تھم نہیں سکے گا بلکہ اس کی تپش پڑوسی ممالک میں محسوس کی جائے گی اور ان پر تشدد واقعات کی وجہ سے پڑوسی ممالک بھی منفی اثرات سے محفوظ نہیں رہ سکیں گے۔ اسلامی تعاون تنظیم اور عرب لیگ کو اپنا پلیٹ فارم فعال کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ مسلم گروہی مسائل و اختلافات کو وہ آپس میں بیٹھ کر حل کرسکتے ہیں۔ ان کے لئے ایسا کچھ نا ممکن نہیں کہ باہمی اختلافات کو ایک طرف رکھ کر مسلم امہ کو درپیش مسائل کے سدباب پر توجہ نہ دے سکیں۔ فروعی اختلافات اپنی جگہ، لیکن جہاں انسانیت و اسلام کو درپیش مسائل میں اجتماعیت نہ ہو تو اس کا فائدہ اسلام دشمن قوتیں اٹھاتی ہیں۔