ڈیفنس (اصل میڈیا ڈیسک) کراچی کے علاقے ڈیفنس سے گذشتہ ہفتے اغواء ہونے والی دعا منگی گھر واپس پہنچ چکی ہے جب کہ ذرائع کا کہنا ہے کہ دعا کی واپسی تاوان کی ادائیگی کے بعد عمل میں آئی ہے۔
دعا منگی کے والد نثار منگی نے بھی اپنی بیٹی کے گھر پہنچنے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا ہے کہ بچی خیریت سے گھر پہنچ گئی ہے جب کہ دعا کی خالہ کا کہنا ہے کہ بچی کی بازیابی کے لیے کسی قسم کا تاوان نہیں دیا گیا، وہ میڈیا اور عوام کی دعاؤں سے گھر واپس آئی ہے۔
دوسری جانب ذرائع کا کہنا ہے کہ اغواء کاروں کو تاوان کی ادائیگی گزشتہ روزکی گئی جس کے بعد گزشتہ شب ہی دعا گھر واپس پہنچ گئی تھی۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ دعا منگی کے اغواء میں ملوث گروہ نہایت ہائی ٹیک ہے اور تاوان کے لیے تمام بات چیت سوشل میڈیا کے ذریعے کی گئی، اغوا کاروں نے دعا منگی کے گھر ویڈیو کال بھی کی اور گھر کا جائزہ لیا۔
دعا منگی کے اغواء کی نوعیت کے حوالے سے ذرائع بتاتے ہیں کہ دعا کا اغواء رواں سال مئی میں ڈیفنس سے ہی گھر کے باہر سے اغواء ہونے والی بسمہ کے اغواء سے مماثلت رکھتا ہے۔
بسمہ کی رہائی بھی بھاری تاوان کی ادائیگی کے بعد عمل میں آئی تھی۔ بسمہ کیس میں جیو فینسنگ میں جو دو نمبر اغواء کے وقت جائے واردات پر موجود تھے وہی دو نمبر دعا کیس میں بھی اغوا کے وقت موجود تھے، اغوا کاروں نے بسمہ کیس میں بھی اس کے گھر وڈیو کال کی تھی۔
یہ بھی اطلاعات ہیں کہ اغواء کار غیر ملکی نمبروں کا استعمال کر رہےہیں، ملوث گروہ غیر ملکی نمبرز کے استعمال کے علاوہ نہایت ہائی ٹیک ہے۔
ذرائع کے مطابق مئی میں اغواء کے بعد رہائی پانے والی بسمہ کے واقعے کو 7 ماہ گزرچکے ہیں لیکن تاحال ملزمان کی گرفتاری عمل میں نہیں آسکی ہے۔
واقعے کے حوالے سے ڈی آئی جی ساؤتھ زون کا کہنا ہے دعا منگی خیر خیریت سے اپنے گھر پہنچ گئی ہے، معاملے کی تفتیش جاری ہے، گھر والوں کا کہنا ہے کہ بچی ابھی خوفزدہ ہے، جب دعا منگی کی طبیعت سنبھلے گی تو اس کا بیان ریکارڈ کریں گے۔
یاد رہے کہ ڈیفنس میں 30 نومبر کو کار سوار ملزمان نے نوجوان حارث کو گولی مار کر زخمی کر دیا تھا اور ان کے ساتھ موجود دوست دعا منگی کو اغواء کر کے فرار ہو گئے تھے۔
مذکورہ واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج منظر عام پر آچکی ہے جس میں میں دیکھا جاسکتا ہے کہ دعا اور حارث چہل قدمی کررہے ہیں اور دونوں جیسے ہی گلی میں مڑے تو ملزمان نے فائرنگ کی۔
اس سے قبل تفتیشی حکام کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ اغواء برائے تاوان نہیں بلکہ بدلہ لینے کا لگتا ہے کیونکہ جو گاڑی اس واردات میں استعمال ہوئی وہ ممکنہ طور پر وہی گاڑی لگتی ہے جو چند روز قبل خالد بن ولید روڈ سے چھینی گئی تھی۔
حکام کا کہنا تھا کہ واردات میں 4 ملزمان ملوث تھے جن میں سے ایک نے اپنا چہرہ نقاب سے چھپا رکھا تھا اور ممکنہ طور پر اس کی وجہ پہچانے جانے کا خوف تھا۔