آنحضرتۖ کا فرمان عالی شان ہے کہ میری امت گمراہی پر یکجا نہیں ہوسکتی۔حضور اکرمۖ کا یہ بھی فرمان ہے کہ میری امت کا اختلاف رحمت کی علامت ہے۔ اسی بات کو ہم دیکھتے ہیں ائمہ مجتہدین نے علم کی معرفت و آگہی کے سلسلہ میں مکمل توسع سے کام لیا ہے اور اپنی رائے کو درست جانتے ہوئے دوسروں کی بات کو بھی عزت و تکریم کی نذر سے دیکھتے رہے نہ کہ بغض و عناد کو شہ دیتے رہے۔دین ثابت شدہ امر ہے اس کے اصول مستحکم و مضبوط ہیں قرآن و سنت نبوی کی روشنی میں اور قرآن کریم کے بیان کردہ اصول و ضوابط متفق علیہ ہیں ،کوئی بھی فرد بشر ان تعلیمات سے انحراف نہیں کر سکتا ماعدا اس کے جس کی نیت میں فساد ہو یا اس کا ذہن میں خباثت بھری ہوئی ہو۔یہی وجہ ہے کہ صحابہ کرام عقائد کی تشریح و تفسیر میں اختلاف سے مامون رہے ہیں۔انہوں نے دین پر من و عن عمل کیا ہے۔ جب کہ عقائد کے اختلاف بعد میں شروع ہوئے ہیں جن کو اہل عقیدہ نے شروع کیا۔
اسلامی تعلیمات کو دنیا بھر میں فروغ دیا گیا تو صحابہ کرام اور حاملین دعوت اسلام نے چہاردانگ عالم اسلام کا پہریرا بلند کیا تھا۔قرآن کریم کی تعلیم عام کی تو احادیث نبویۖ کو بھی پھیلایا۔اس بات میں تردد نہیں ہے کہ نبی اکرمۖ کی تعلیمات و ارشادات پھیلانے والوں کی کثرت ہے۔اس بناپر بعض علاقوں میں چند احادیث پہنچی اور چند جگہوں پر اور احادیث پہنچی۔اس وجہ سے بعض احادیث احناف کے نزدیک درست ہیں تو بعض جن کے پاس وہ روایت نہیں پہنچی انہوں نے اس کو ضعیف گردانا۔
یہی وجہ ہے کہ آئمہ کرام نے وسعت و کشادگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہمیشہ جس بات کو صحیح سمجھا تو اس کے متعلق واضح کیا کہ یہ میرامذہب ہے۔ اس لیے بعض ائمہ مالکیہ نے ایک حدیث پر فتوی دیا تو دوسرے ائمہ کرام اس کو مسترد کرتے تھے کیونکہ اس کو ضعیف سمجھتے تھے۔فتویٰ احادیث کی قوت کی بناپر دیا جاتاہے۔اسی طرح شرعی حکم کی بنیاد میں اہم کردار معاشرہ کی حالت و کیفیت کو بھی حاصل ہوتاہے۔اور اسی طرح حکم کا اعتبار مروج فقہ کی وجہ سے استقرار حاصل کرتاہے ۔جیسے امام شافعی نے حجاز سے فقہ کا علم حاصل کیا تو پھر انہوں نے بغداد میں فقہ حنفی کا علم بھی حاصل کیا۔اس کے بعد انہوں نے مصر میں بھی فقہ کے علم سے استفادہ کیا۔اس وجہ سے امام شافعی کی فقہ بہت ہی خاص ہے۔ امام شافعی کی جانب سے فقہ مالکی،فقہ حنفی اور مصر کے فقہاء سے استفادہ کا یہ خوشگوار پیغام ملتا ہے کہ ائمہ کرام ایک دوسرے کے مکتب و مذہب کا احترام کرتے ہیں۔
لہذا یہ بات واضح ہوتی ہے کہ دین میں اختلاف مذہب و فکر کی بنیاد پر تعصب و تنگ نظری اور شدت پسندی کو جگہ دینے کی کوئی سعی نہیں کی جانی چاہیے۔اپنی رائے کو درست اور دوسرے کی بات کو غلط سمجھنا اور اس پر اصرار کرنا علم کی علامت نہیں بلکہ یہ ایک بیماری کو ظاہر کرتاہے۔علم تو معرفت اور شناسائی کے دروازوں کو واں کرتا ہے اور دوسروں کی بات کو سننے اور اس پر سوچنے کا داعیہ پیدا کرتاہے جبکہ نفرت و لڑائی اور دشمنی اختیار کرلینا فقہی مسائل کی وجہ سے یہ کوشش کسی طورپر علم کی خدمت کا موجب نہیں ۔
فقہی اختلاف کا وقوع پذیر ہوجانا کوئی اچنبھے کی بات نہیں بلکہ یہ تو حکمت و دانشمندی اور وقت و جگہ کی نوعیت پر منحصر ہے کہ فتویٰ کس طرح دیا جائے۔ معاشرے کی عادات و تقالید اور عوام الناس کی مصلحت و ضرورت کو سامنے رکھتے شرعی حکم عائد کیا جاتاہے۔ مثلاً امام مالک نزدیک ایک مرتبہ کسی عورت کا دودھ پی لینے سے اس کے بچوں سے ساتھ شادی حرام ہوجاتی ہے جبکہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک رضاعت ایک بار سے نہیں بلکہ پانچ بار دودھ پینے سے ثابت ہوتی ہے ۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ ایک بار رضاعت ثابت کرنے کا مطلب یہ ہے کہ شادی کا انعقاد عمل میں نہ لایا جائے جبکہ امام ابوحنیفہ کے مسئلہ کی حکمت یہ ہے کہ اگر شادی ہوچکی اور بال بچیے بھی ہوں تو ایسے میں رضاعت کے ثبوت کو سختی کے ساتھ ثابت کرنے کی بجائے دیکھا جائے گا کہ دودھ کتنی بار پیا گیا ہے۔
اس بات میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ علماء فقہ کی اکثریت عصبیت سے پاک تھے اور وہ ایک دوسرے سے بوقت ضرورت استفادہ کرتے رہتے تھے اور آج بھی کسی ایک فقہ پر عمل کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ باقی فقہاء کی آراء سے استفادہ نہ کیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ بوقت ضرورت چاروں ائمہ کی تعلیمات سے برابر فائدہ حاصل کیا جائے ۔چونکہ فقہ کا علم تو لوگوں کی آسانی و سہولت کے لیے مدون کیا گیا ہے۔اختلاف فقہی ہو یا کسی بھی نوعیت کا جب تک اختلاف برائے اصلاح ہے تو رحمت ہی رہے گا جب وہ اختلاف برائے تنقید ہوگا تو نزاع و فساد کو موجب بن جائے گا جوکہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔