امریکا (اصل میڈیا ڈیسک) گزشتہ برس ہتھیار فروخت کرنے والے دنیا کے ایک سو بڑے اداروں کے کاروبار میں مزید وسعت ہوئی ہے۔ سن 2018 میں 420 بلین ڈالر کا گولہ بارود اور اسلحہ فروخت ہوا۔
ہتھیار سازی اور اس کی خرید و فروخت پر نگاہ رکھنے والے سویڈش ادارے سپری کی تازہ رپورٹ میں بتایا گیا کہ سن 2018 میں اس سے ایک برس قبل کے مقابلے میں ہتھیاروں کی فروخت میں 4.6 فیصد کا اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق سن 2002 کے مقابلے میں سن 2018 میں ہتھیاروں کی صنعت میں سینتالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جو انتہائی غیرمعمولی اور حیران کن ہے۔ اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (SIPRI) کی اس تازہ رپورٹ میں چین کے اعداد و شمار شامل نہیں ہیں کہ بیجنگ حکومت نے کتنے ہتھیاروں کے سودے کیے اور خریدے۔
سپری کی رپورٹ آج پیر نو دسمبر کو جاری کی گئی ہے۔ اس کے مطابق دنیا بھر میں اسلحے کی فروخت کی پہلی سو بڑی کمپنیوں کی فہرست میں سب سے اوپر کی پانچ کمپنیوں کا تعلق امریکا سے ہے۔ امریکی کمپنیوں کے ہتھیاروں کی فروخت میں 5.8 فیصد اضافہ ہوا۔ انہوں نے 210 بلین ڈالر کے ہتھیار مختلف اقوام کو فروخت کیے۔ دنیا میں 35 فیصد اسلحہ امریکی کمپنیوں نے فروخت کیا۔
امریکا کی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن پہلے مقام پر اور بوئنگ دوسرے مقام پر ہے۔ امریکا کی ٹاپ پانچ کمپنیوں کے بعد پہلی غیر امریکی کمپنی برطانیہ کی بی اے ای سسٹم ہے۔ اس کے بعد ایئر بس کا نمبر آتا ہے۔ جرمنی کی ہتھیار ساز کمپنی رائن میٹل بائیسویں مقام پر ہے۔
یورپی اسلحہ ساز ادارے بھی اس کاروبار میں پیچھے نہیں رہے۔ ان کے کاروبار میں سن 2018 کے دوران 0.7 فیصد اضافہ ہوا اور ان کے ہتھیاروں کی فروخت کا حجم 102 بلین ڈالر کے قریب رہا۔
دوسرے جانب اس رپورٹ کے مطابق روسی ہتھیار ساز کمپنیوں کی فروخت میں گراوٹ دیکھی گئی ہے۔ ان کی مجموعی فروخت میں 0.4 فیصد کی کمی ہوئی۔ روسی اسلحہ ساز کمپنیوں نے چھتیس بلین ڈالر سے زائد کے ہتھیار بیچے۔