اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا نے سابق سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس ( ایس ایس پی) ملیر راؤ انوار کو بلیک لسٹ کرتے ہوئے ان پر پابندی عائد کر دی۔
امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے انسانسی حقوق کے عالمی دن کے موقع پر اعلامیہ جاری کیا گیا ہے جس کے مطابق وزارت خزانہ نے 6 مختلف ملکوں کے 18 افراد پر معاشی پابندیاں عائد کی ہیں جن میں راؤ انوار کا نام بھی شامل ہے۔
اعلامیے کے مطابق کراچی کے ضلع ملیر میں کافی عرصے تک تعینات رہنے والے سندھ پولیس کے سابق ایس ایس پی راؤ انوارپر انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے الزام میں یہ پابندی لگائی گئی ہے۔
امریکی حکام کے مطابق راؤ انوار بالواسطہ یا بلاواسطہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی کے ذمہ دار رہے ہیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ راؤ انوار متعدد مبینہ جعلی پولیس مقابلوں کے ذمہ دار تھے اور راؤ انوار نے190 مبینہ جعلی پولیس مقابلے کیے جن میں نقیب اللہ محسود سمیت 400افراد مارے گئے۔
اعلامیے میں راؤ انوارپربھتہ خوری،زمین پر قبضہ، منشیات اور قتل کرنے والوں کی مدد کا الزام لگایا گیا ہے۔
امریکی محکمہ خزانہ کے مطابق راؤ انوار کانیٹ ورک مبینہ طور پر اغوا، زمینوں پر قبضے، منشیات اورقتل میں ملوث تھا۔
پابندی کے اعلان کے بعد ان 18 افراد کے امریکا میں موجود اثاثے منجمد ہوجائیں گے جب کہ امریکی شہری بھی ان افراد سے کسی قسم کا تجارتی لین دین نہیں کرسکیں گے۔
ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے 18 افراد پرمعاشی پابندی کے علاوہ دیگر 2 افراد پر امریکا میں داخلے کی پابندی بھی لگائی گئی ہے جس میں ترکی میں سعودی عرب کے سابق قونصل جنرل بھی شامل ہیں جن پر مبینہ طور پر سعودی صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں کردار اداکرنے کا الزام ہے۔
خیال رہے کہ نقیب اللہ قتل سے قبل بھی راؤ انوار پر جعلی پولیس مقابلوں کے الزامات تھے تاہم نقیب اللہ کے واقعے کے بعد اس معاملے کو ملک گیر سطح پر سیاسی و غیر سرکاری تنظمیوں نے اٹھایا بلکہ سپریم کورٹ نے بھی ازخود نوٹس لیا۔
13 جنوری 2018 کو ملیر کے علاقے شاہ لطیف ٹاؤن میں سابق ایس ایس پی ملیر راؤ انوار نے نوجوان نقیب اللہ محسود کو دیگر 3 افراد کے ہمراہ دہشت گرد قرار دے کر مقابلے میں مار دیا۔
بعدازاں 27 سالہ نوجوان نقیب اللہ محسود کے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر اس کی تصاویر اور فنکارانہ مصروفیات کے باعث سوشل میڈیا پر خوب لے دے ہوئی اور پاکستانی میڈیا نے بھی اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس معاملے پر آواز اٹھائی اور وزیر داخلہ سندھ کو انکوائری کا حکم دیا۔
تحقیقاتی کمیٹی کی جانب سے ابتدائی رپورٹ میں راؤ انوار کو معطل کرنے کی سفارش کے بعد انہیں عہدے سے ہٹا کر نام ای سی ایل میں شامل کردیا گیا، جبکہ چیف جسٹس آف پاکستان کی جانب سے اس معاملے پر لیے گئے ازخود نوٹس کی سماعت جاری ہے۔
راؤ انوار نے سپریم کورٹ آف پاکستان میں خود کو سرنڈر کردیا تھا جس کے بعد انہیں کراچی منتقل کیا جاچکا ہے۔