اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) وکلاء کی جانب سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) کے اندر گھس کر توڑ پھوڑ کی گئی اور ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
لاہور میں وکلا آپے سے باہر ہوگئے، غنڈہ گردی پر اتر آئے، ڈاکٹرز کی جانب سے ویڈیو وائرل کرنے پر دِل کے اسپتال پر حملہ کردیا، مریضوں کا خیال تک نہ کیا۔
رکاوٹیں ہٹا کر اسپتال میں داخل ہوئے، راستے میں کھڑی گاڑیوں کو نقصان پہنچایا، ایمرجنسی کے شیشے توڑ دیے، اسپتال کے باہر سے بھی اینٹیں برسائیں، باہر کھڑی پولیس موبائل کو آگ لگادی۔
وزیر اطلاعات فیض الحسن چوہان کو بھی نہ چھوڑا، تشدد کا نشانہ بنایا، آنے جانے والوں پر ڈنڈے برسائے، مریضوں کے اہل خانہ زد میں آئے، ڈاکٹرز کو بھی مارا پیٹا، وکلا نے ہوائی فائرنگ بھی کی، صحافیوں کو بھی نہیں چھوڑا ، جیونیوز کے رپورٹر احمد فراز پر بھی تشدد کیا، ایک وکیل نےاسلحے کے زور پر قریبی دکانیں بند کروائیں۔
وکلاء کی جانب سے پی آئی سی میں گھس کر توڑ پھوڑ اور ڈاکٹروں کو تشدد کا نشانہ بنانے کی ویڈیو بھی منظر عام پر آ گئی ہے۔
ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے باہر احتجاج کرنے والے کئی وکلا اسپتال کا گیٹ کھلوا کر اسپتال کے اندر داخل ہورہے ہیں اور وہ ایمرجنسی وارڈز میں داخل ہوکر توڑ پھوڑ کررہے ہیں۔
وکلاء کی جانب سے اسپتال کے احاطے میں کھڑی گاڑیوں کے شیشے بھی توڑ دیئے گئے۔
وکلاء کی ہلڑ بازی کی وجہ سے اسپتال میں زیر علاج مریضوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور ڈرپس لگے کئی مریض وارڈ سے باہر آ گئے۔
مغل پورہ کے رہائشی ایک نوجوان نے بتایا کہ اسپتال میں صورت حال کی وجہ سے ان کی والدہ گلشن بی بی انتقال کر گئیں، نوجوان نے بتایا کہ والدہ نے تکلیف کی شکایت کی لیکن کوئی ڈاکٹر ہی نہیں ملا۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر ثاقب شفیع کا جیو نیوز سے گفتگو میں کہنا تھا کہ وکلاء کی ہنگامہ آرائی میں اسپتال میں داخل 2 مریض انتقال کرگئے ہیں۔
اسپتال میں زیر علاج ایک مریض کے بھائی نے کہا کہ میرے بھائی کے دل کا آپریشن ہو رہا ہے، وکلاء یہ کیا کر رہے ہیں؟
ایک اور مریض کے لواحقین نے دُہائی دی کہ دوائی لینے جا رہا تھا کہ اس دوران وکلاء نے تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر سلمان حسیب کا کہنا ہے کہ وکلاء نے کارڈیالوجی اسپتال کے اندر توڑ پھوڑ کی جس کی وجہ سے ڈاکٹرز ، نرسز، پیرا میڈکس اور مریضوں کی جانوں کو خدشات لاحق ہیں۔
وکلاء کے ہنگامے کے باعث پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے ڈاکٹرز اور دیگر طبی عملہ کام چھوڑ کر چلا گیا۔
وکلاء کی جانب سے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں تشدد کے واقعے کے بعد ڈاکٹرز بھی وکلاء کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے اور وکلاء کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔
وکلاء اور ڈاکٹرز کی جانب سے ایک دوسرے پر پتھراؤ کیا گیا جب کہ پولیس کی جانب سے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس کا استعمال بھی کیا گیا۔
کشیدگی کے باعث پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے آس پاس جی ٹی روڈ پر موجود مارکیٹ کو بند کروا دیا گیا اور رینجرز کی نفری بھی جائے وقوعہ پر طلب کرلی گئی جس کے کئی گھنٹوں بعد حالات معمول پر آگئے۔
واقعے کی اطلاع ملنے کے بعد وزیر اطلاعات پنجاب فیاض الحسن چوہان رپورٹ لینے کے لیے موقع پر پہنچے تو مشتعل وکلاء نے انہیں بھی تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
صوبائی وزیر اطلاعات کا کہنا ہے کہ وہ وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی ہدایت پر بیچ بچاؤ کرانے کے لیے آئے تھے لیکن وکلاء کی جانب سے انہیں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
فیاض چوہان نے الزام عائد کیا کہ انہیں اغوا کرنے کی کوشش کی گئی لیکن وہ کسی سے ڈرنے والے نہیں ہیں۔
ان کا کہنا تھا آج انصاف پسند وکلاء بہت رنجیدہ اور دکھی ہوں گے، توڑ پھوڑ کرنے والے وکلاء کے خلاف تادیبی کارروائی ہو گی۔
اس کے علاوہ وکلاء کی جانب سے میڈیا نمائندوں اور ڈاکٹرز پر بھی تشدد کیا گیا۔
وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں وکلاء کی ہنگامہ آرائی کا نوٹس لیتے ہوئے سی سی پی او لاہور اور صوبائی سیکریٹری اسپشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔
وزیراعلیٰ عثمان بزدار کا کہنا تھا کوئی بھی قانون سے بالا تر نہیں ہے، ہنگامہ آرائی کے ذمہ داروں کے خلاف قانون کے تحت کارروائی عمل میں لائی جائے۔
انہوں نے کہا کہ دل کے اسپتال میں ایسا واقعہ ناقابل برداشت ہے، مریضوں کے علاج معالجے میں رکاوٹ ڈالنا غیر انسانی اور مجرمانہ اقدام ہے، پنجاب حکومت ذمہ داروں کے خلاف سخت قانونی کارروائی کرے گی۔
وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں ہنگامہ آرائی کی تحقیقات کے لیے صوبائی وزیر قانون راجہ بشارت کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے۔
صوبائی وزیر صحت ڈاکٹر یاسمین راشد، انسپکٹر جنرل پولیس، ایڈیشنل چیف سیکریٹری داخلہ اور سیکریٹری اسپیشلائزڈ ہیلتھ اینڈ میڈیکل ایجوکیشن بھی کمیٹی میں شامل ہیں۔
کمیٹی وکلا کی ہنگامہ آرائی اور توڑ پھوڑ کے واقعے کی انکوائری کر کے رپورٹ وزیراعلیٰ کو پیش کرے گی اور ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلاء کا تعین کرے گی۔
24 نومبر 2019 کو عظیم سندھو نامی وکیل والدہ کے علاج کے لیے پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی گیا جہاں دوران علاج وکلاء نے ڈاکٹروں پر لاپرواہی کا الزام لگایا اور اس دوران ڈاکٹرز اور وکلاء کے درمیان ہاتھا پائی ہوئی۔
اسپتال میں ہاتھا پائی کی وجہ سے بھگدڑ مچ گئی اور فریقین کی جانب سے ایک دوسرے کے خلاف مقدمات درج کیے گئے۔
واقعے کے بعد اگلے روز ڈاکٹرز نے اسپتال میں ہڑتال کی اور جیل روڈ پر گرینڈ ہیلتھ الائنس کی جانب سے دھرنا بھی دیا گیا جبکہ وکلاء نے بھی اس دوران ڈاکٹرز کے خلاف احتجاج کیا اور سول سیکرٹریٹ پر میں گھس کر چیف سیکریٹری کے دفتر کے باہر دھرنا دیا۔
گزشتہ روز پولیس کی جانب سے پی آئی سی کے 2 ملازمین کو گرفتار کیا گیا جس پر ڈاکٹرز نے ایک بار پھر ہڑتال کی جبکہ اس دوران وکلاء کی جانب سے پولیس پر کارروائی نہ کرنے کا الزام لگایا گیا تاہم آج وکلاء نے اسپتال کے سامنے احتجاج کیا اور پھر دروازے کھلواکر اندر داخل ہوگئے جس کے بعد دل کا سب سے بڑا اسپتال وکلاء گردی کا نشانہ بنا۔