جی 20 اہم معیشتوں کی حکومتوں اور مرکزی بینک کے گورنروں کا ایک بین الاقوامی فورم ہے۔ اس کے ارکین میں 19 انفرادی ممالک ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، جاپان، جنوبی کوریا، میکسیکو، روس، سعودی عرب، جنوبی افریقا، ترکی، مملکت متحدہ، ریاستہائے متحدہ امریکا اور یورپی یونین شامل ہیں۔ یورپی یونین کے دیگر رکن ممالک انفرادی طور پر اس کے رکن نہیں ہیں۔ گروپ آف ٹونٹی اقتصادی لحاظ سے دنیا کے بیس ممالک کے سربراہان کے عالمی اکٹھ کا نام ہے۔ یورپی یونین اور معاشی طور مستحکم 19 ممالک اس گروپ میں شامل ہیں۔جی 20 کی تشکیل 1999ء میں ایشیا کو درپیش اقتصادی بحران کا حل تلاش کرنے کے لیے ہوئیـ اسی وقت سے گروپ کسی مستقل صدر دفتر اور عملے کے بغیر کام کر رہا ہےـ اس کی صدارت بھی ہر سال باری باری رکن ملکوں میں سے کسی ایک کے سپرد کی جاتی ہے۔گروپ میں یورپی یونین کے علاوہ جنوبی افریقا، امریکا، سعودی عرب، جنوبی کوریا، جرمنی، بھارت، انڈونیشیا، اٹلی، ترکی، ارجنٹائن، آسٹریلیا، برازیل، کینیڈا، چین، فرانس، جاپان، میکسیکو، روس اور برطانیہ شامل ہیں۔ مگر ان ممالک کے علاوہ دیگر ملکوں کو بھی بطور مہمان بھی دعوت دی جا سکتی ہے۔اس میں شامل رکن ممالک دنیا کی مجموعی آبادی کے 65 فیصد کی نمائندگی کرتے ہیں جبکہ دنیا کی مجموعی پیداوار کا 80 فیصد حصہ بھی انہی ممالک سے آتا ہے۔ عالمی تجارت کے 75 حجم میں بھی انہی بیس ممالک کا حصہ ہےـ
اس سالانہ ملاقات کے دوران عالمی رہنما سب سے اہم مالیاتی اور اقتصادی مسائل پر تبادلہ خیال کرتے ہیں،جی ٹوئنٹی کے قیام کے نو سال بعد 2008 کے عالمی معاشی بحران کو سنبھالنے میں کافی مدد ملی۔ 2008ء کا عالمی معاشی بحران گذشتہ 80 برس کے دوران آنے والا بدترین معاشی دھچکا تھا۔ واشنگٹن میں ہونے والے اجلاس کی بدولت عالمی معاشی نظام میں لوگوں کا اعتماد بحال ہوا۔ اجلاس کے دوران رکن ممالک نے معاشی اصلاحات متعارف کروانے کے لئے چالیس کھرب ڈالر کی خطیر رقم خرچ کرنے کا اعلان کیا۔اس گروپ کے 2017ء میں جرمنی میں منعقدہ اجلاس کا مرکزی نقطہ معاشی کرپشن تھا جب کہ 2018ء میں ارجنٹائن میں ہونے والے اجلاس میں پائیدار ترقی پر توجہ مرکوز رہی۔2019میں جاپان کے شہر اوساکا میں ہونے والے جی 20 سمٹ کے دوران عالمی تجارتی ادارے “ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن” میں اصلاحات اور صحت سے متعلق عالمی مسائل پر بحث ہوئی،جی 20 سمٹ کے گذشتہ اجلاسوں کے دوران متعدد تاریخ ساز لمحے پیش آ چکے ہیں جن میں سربراہان مملکت کے درمیان تاریخی ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور روسی صدر ولادی میر پوتین کی پہلی ملاقات جی 20 سمٹ کے دوران ہی ہوئی تھی۔جی ٹوئنٹی ممالک مشترکہ طور پر عالمی اقتصادی پیداوار کے تقریباً 85 فیصد جب کہ اسی فیصد عالمی تجارت کے ذمے دار ہیں۔
دنیا کی دو تہائی آبادی ان ممالک میں آباد ہے۔اس گروپ کے وزرائے خارجہ اور وزرائے مالیات کے اجلاس بھی ہوتے ہیں۔ ان اجلاسوں میں یورپی یونین کی نمائندگی یورپی کمیشن اور یورپی سینٹرل بینک کرتا ہے۔ اس کے علاوہ جی ٹوئنٹی اپنے اجلاسوں میں کچھ مستقل مہمان ممالک کو بھی مدعو کرتا ہے، جس میں افریقی یونین، ایشیا پیسیفک کوآپریشن، عالمی مالیاتی فنڈ، اقوام متحدہ، عالمی ادارہ تجارت اور اسپین شامل ہیں۔رواں برس جاپان میں جی بیس کا اجلاس ہوا تھا، اجلاس میں چین کے وزیر خارجہ وانگ ای نے اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ کی پالیسیوں پر کڑی نکتہ چینی کی۔وزیر خارجہ وانگ ای نے کہا کہ امریکا دنیا بھر میں عدم استحکام کا باعث بننے والا ملک ہے، امریکی حکام اور سیاست دان چین کے خلاف بے بنیاد اور نفرت آمیز مہم چلانے میں مصروف ہیں، اس کے باوجود چین خطے میں استحکام کی خاطر امریکا سے تجارتی معاہدوں کی بحالی کا خواہش مند ہے۔وزیر خارجہ نے چین اور امریکا کے درمیان تجارتی اختلافات کو حل کرنے کے لیے مذاکرات کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ چین کے مذاکرات میں پہل کرنے کو امریکی بالادستی تسلیم کرنے سے نہ جوڑا جائے۔ دونوں ممالک تعاون کو فروغ دے کر ایک دوسرے کے مفادات کے تحفظ کو یقینی بنائیں۔
سعودی عرب نے جاپان سے جی20 کی صدارت حاصل کرلی اور وہ یہ اعزاز حاصل کرنے والا پہلا عرب ملک بن گیا جبکہ مستقبل میں عالمی سطح پر ان کے وسیع کردار کی امید بحال ہوگئی ہے۔سعودی عرب نے اتوار یکم دسمبر سے جی 20 تنظیم کی سربراہی سنبھال لی ہے۔جی 20 دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں پر مبنی بیس ممبران ممالک کی تنظیم ہے۔سعودی عرب جی 20 کی قیادت کے دوران تین اہدف پر توجہ مرکوز کرے گا۔ ان میں شامل ہے لوگوں کو بااختیار بنانا، ایسا ماحول بنانا جس میں سب خاص طور پر خواتین اور نوجوان افراد کام اور ترقی کر سکیں، خوراک و پانی کے تحفظ کو فروغ دیں اور ایسے منصوبے بنائیں جس سے ٹیکنالوجی کے شعبے میں ترقی ہو۔سعودی عرب سے پہلے جاپان تنظیم کی سربراہی کر رہا تھا۔ نومبر 2020 کے آخر تک جی 20 کی سربراہی سعودی عرب کرے گا۔ آئندہ سال 21 اور 22 نومبر کو جی 20 کا سربراہ اجلاس سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں منعقد ہو گا۔سعودی عرب نے 2019 کے دوران جی 20 کی بہترین قیادت اور شاندار نتائج پر جاپان کو خراج تحسین پیش کیا ہے۔سعودی عرب نے سو سے زیادہ کانفرنسوں اور اجلاسوں میں شرکت کے لیے کئی عرب اور دوست ممالک کو دعوت نامے جاری کردیے ہیں۔ علاقائی اور بین الاقوامی تنظیموں کو بھی کانفرنسوں اور اجلاسوں میں نمائندگی دی جائے گی۔
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اوساکا سے شروع ہونے والے مشن کو جاری رکھنے کا پابند ہے۔ سعودی عرب بین الاقوامی ہم آہنگی کو فروغ دینے کی بھرپور کوشش کرے گا۔جی 20 میں شامل ممالک کے تعاون سے قابل قدر کارنامے حاصل کرنے کی جدوجہد کریں گے۔ مستقبل کے چیلنجوں سے نمٹنے کے لیے موجود امکانات سے بھرپور فائدہ اٹھائیں گے۔جی 20 کی میزبانی کرکے سعودی عرب مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے نقطہ نظر کو اجاگر کرنے کی فکر کرے گا۔ ہمیں یقین ہے کہ بین الاقوامی مسائل سے متعلق عالمی ہم آہنگی بروئے کار لانے کا یہ منفرد موقع ہے۔جی 20 کا نیا لوگو سعودی ڈیزائنر محمد الحواس نے تیار کیا ہے۔ انہوں نے ٹویٹر پر بتایا کہ میرے لیے بڑے فخر کی بات ہے کہ جی 20 کی سعودی قیادت کے لوگو کا ڈیزائن مجھے بنانے کا موقع دیا گیا۔سعودی عرب کے کاروباری ماحول کی اصلاحات دنیا کے 190 ممالک میں اپنے ہم منصبوں میں سرفہرست ہے، گذشتہ سال سعودی عرب 30 ویں مقام پر منتقل ہونے کے بعد ورلڈ بینک کی ڈوئنگ بزنس 2020 کی رپورٹ میں شامل ہوگیا ہے۔ 10 اہم انڈیکسز کی نگرانی کرنے والی سالانہ رپورٹ کے نتائج کے مطابق ، سعودی عرب کاروبار کرنے میں سہولت فراہم کرنے والا سب سے بہتر ملک بن گیا ہے ، جبکہ ورلڈ بینک گروپ کے چیف ریسرچ ڈائریکٹر ، ڈاکٹر شمعون یانکوف نے کہا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران کاروباری ماحول کو بہتر بنانے میں مملکت کی جانب سے تیز رفتار پیشرفت ہوئی ہے ، جو فروغ پزیر اور متحرک معیشت تک پہنچنے کے لئے کاروبار اور نجی شعبے کی مدد کرنے کے سلسلے میں اس کے عزم کی تصدیق کرتی ہے۔