برطانیہ (اصل میڈیا ڈیسک) برطانیہ میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی کامیاب ثابت ہوئی ہے۔ اپوزیشن کی سیاسی جماعت لیبر پارٹی کو تاریخی شکست کا سامنا رہا۔ کئی حلقوں میں لیبر پارٹی اپنی سیٹوں کا دفاع نہیں کر سکی۔
برطانیہ میں بارہ دسمبر کو منعقدہ پارلیمانی انتخابات کے ابتدائی غیر حتمی نتائج کے مطابق کنزرویٹو پارٹی کے رہنما بورس جانسن ایک بڑی کامیابی حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت کنزرویٹو پارٹی نے حریف جماعتوں کو پچھاڑ دیا ہے۔ سن 1987 میں ہونے والے الیکشن میں کنزرویٹو پارٹی نے 339 نشستیں حاصل کی تھیں اور اب بورس جانسن کی قیادت میں قدامت پسند سیاسی جماعت نے فتع کی ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔
حتمی نتائج آنے پر کنزرویٹو پارٹی کو 368 تشستیں حاصل ہو سکتی ہیں۔ الیکشن میں ان کے نعرے’ گیٹ بریگزٹ ڈن نے کام کر دکھایا۔ ایک مرتبہ پھر شمالی اور ویلز کے علاقوں میں بریگزٹ مخالف سیاسی جماعتوں کو ناکامی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس طرح عوام نے بریگزٹ کے تمام مخالفین کو مسترد کر دیا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق بارہ دسمبر کے انتخابات کا نتیجہ سن 2016 کے ریفرنڈم کا اعادہ ہے۔ اپوزیشن کی بڑی جماعت لیبر پارٹی کو کم از کم ایسے ستر حلقوں میں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا، جہاں وہ سابقہ انتخابات میں کامیاب رہی تھی۔ جیریمی کوربن نے انتخابی نتائج کو مایوس کن قرار دیا۔
کنزرویٹو پارٹی کی شاندار کامیابی پر عالمی مالیاتی منڈیوں میں برطانوی کرنسی کی قدر میں غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔ بارہ دسمبر کو کسی پارٹی کو واضح اکثریت حاصل نہ ہونے کے خدشات کی وجہ سے پانڈ کی قدر عالمی منڈیوں میں واضح طور پر کم ہوئی تھی۔
برطانوی پارلیمنٹ کے دارالعوام کی نشستوں کی تعداد 650 ہے اور وزیراعظم بورس جانسن کو اکثریت حاصل ہو گئی ہے۔ اس طرح وہ حکومت سازی کے ساتھ ساتھ بریگزٹ کی ڈیل کی منظوری آسانی سے حاصل کر سکیں گے۔ سن 1987 کے بعد یہ کنزرویٹو پارٹی کی سب سے بڑی انتخابی جیت ہے۔ پینتیس برس قبل کنزرویٹو پارٹی کی قیادت مارگریٹ تھیٹچر کر رہی تھیں۔
بورس جانسن نے الیکشن میں کامیابی کو تاریخی قرار دیتے ہوئے کہا کہ اب تشکیل پانے والی نئی حکومت عوام کے جذبات اور اظہار کا احترام کرے گی۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی کامیابی کو ایک طاقتور مینڈیٹ قرار دیا ہے۔ الیکشن میں کامیابی پر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی اسے بورس جانسن کی شاندار جیت قرار دیا۔
لیبر پارٹی کو صرف دو سو تین نشستیں حاصل ہوئی ہیں۔ سن 1935 کے بعد یہ اس سیاسی جماعت کی خراب ترین کارکردگی ہے۔ کوربن نے اپنے انتخابی منشور میں سوشلسٹ حکومت قائم کرنے کا جو خواب دیکھا تھا وہ چکنا چور ہو کر رہ گیا ہے۔ انہوں نے اپنی پارٹی کی قیادت سے دستبردار ہونے کا اعلان بھی کر دیا ہے۔