لاہور (اصل میڈیا ڈیسک) سپریم کورٹ آف پاکستان کے سابق صدر اور وکیل رہنما حامد خان کے بقول وکیلوں اور ڈاکٹروں کے مابین تنازعے کے پیچھے وہ قوتیں ہیں، جو کشیدگی کو بڑھاوا دے کر ایسے حالات پیدا کرنا چاہتی ہیں، جن سے شہری آزادیاں سلب کی جا سکیں۔
حامد خان کا کہنا تھا کہ اس بات سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے مابین تنازعے کو شدت دینے میں وکلا، ڈاکٹروں اور حکومت تینوں کی غلطیاں شامل ہیں۔ ان کے بقول یہ تنازعہ معمولی بات سے شروع ہوا۔ حکومت حکمت سے کام لے کر اسے سلجھا سکتی تھی، اسے ختم کروا سکتی تھی لیکن حکومت نے پہلے ایف آئی آر درج کرنے میں دیر کی، پھر وکلا کو تشدد کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لیا گیا۔ اس کے باوجود فریقین نے بات چیت کے ذریعے اپنے اختلافات طے کر لیے لیکن پھر کسی خفیہ ہاتھ نے ایک ڈاکٹر کی ایسی ویڈیو وائرل کر دی، جس میں وکلا کے خلاف تضحیک آمیز خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔
حامد خان نے کہا کہ اس تنازعے کو بڑھاوا دینے والے چاہتے ہیں کہ پاکستان میں شہری آزادیوں کی جنگ لڑنے والے پریشر گروپس کو متنازعہ بنا کر کمزور کیا جائے۔ اُن کے الفاظ میں پاکستان میں پہلے ہی ایک سویلین روپ میں ڈکٹیٹر شپ جاری ہے، انسانی حقوق سلب ہو رہے ہیں اور میڈیا پر پابندیاں ہیں۔ ان حالات میں میڈیا کے بعد اُس وکلا برادری کو تنہا کیا جا رہا ہے جو اسٹیبلشمنٹ کے غلط اقدامات کے خلاف بات کر سکتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں اُن کا کہنا تھا کہ انہیں شدید خطرات لاحق ہیں کہ پاکستان میں ایک مخصوص صورتِ حال پیدا کر کے جمہوری قوتوں کے خلاف ایک سازش کی جا رہی ہے۔
اُنہوں نے پاکستانی عوام سے اپیل کی کہ وہ الزامات اور جوابی الزامات کو نظر انداز کرتے ہوئے ان واقعات کے پیچھے چھپی ہوئی اصل کہانی کو سمجھنے کی کوشش کریں اور چند نوجوان وکیلوں کی غلطیوں کی وجہ سے پچھلے ستر سالوں سے آئین کی بالا دستی کی جدوجہد کرنے والی وکلا برادری کی کوششوں کو ڈس کریڈٹ نہ کریں۔
اس سے پہلے وکلا کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے سانحہ پی آئی سی کے دوران شہید ہونے والے مریضوں کے اہلِ خانہ سے معافی بھی مانگی تھی۔
دوسری طرف پنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان کا کہنا ہے کہ وکلا اور ڈاکٹروں کے تنازعے کو کسی تیسری قوت نے فساد کی شکل دی ہے۔ اُن کا کہنا تھا کہ پی آئی سی حملے میں ملک دشمن سیاسی قوتوں کی سازش شامل تھی۔ پنجاب کے وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے کہا ہے کہ پی آئی سی حملہ کیس کے پیچھے موجود عناصر کا پتہ چلانے کے لیے تحقیقات کی جا رہی ہیں۔
لاہور میں پولیس نے وزیراعظم عمران خان کے بھانجے بیریسٹر حسان نیازی کی گرفتاری کے لیے ان کے گھر پر چھاپہ مارا لیکن اُن کے گھر پر موجود نہ ہونے کی وجہ سے اُن کے گرفتار نہ کیا جا سکا۔ پاکستان کے وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی نے اپنے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے حسان نیازی کی گرفتاری پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ یاد رہے 11 دسمبر 2019ء جن وکلا نے دل کے ہسپتال پر حملہ کیا تھا۔ اُن میں وزیراعظم پاکستان عمران خان کے بھانجے بیرسٹر حسان نیازی بھی شامل تھے۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی باقر نجفی نے وکلا کی طرف سے دائر کی جانے والی درخواستوں کی سماعت کے دوران سخت ریمارکس دیتے ہوئے وکلا سے کہا،” آپ کو ہسپتال پر حملے کرنے کی جرأت کیسے ہوئی۔ جب کہ اس طرح تو جنگوں میں بھی نہیں کیا جاتا۔ آپ نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ آپ کو اندازہ نہیں کہ ہم کس دکھ میں ہیں۔‘‘ انہوں نے کہا کہ جنگل کے قانون میں معاشرے نہیں بچتے اور جو کچھ وکلا نے کیا ہے وہ جنگل کا قانون ہے۔
اس موقع پر دو رکنی بینچ کے دوسرے جج جسٹس انوارالحق پنو نے سوال کیا کہ کیا اس کی کوئی توقع ہے کہ کوئی بار کونسل اس واقع کے بعد ذمہ داروں کے خلاف کوئی کارروائی کرے۔ اس پر وکلا کی نمائندگی کرنے والے اعظم نذیر تارڑ ایڈووکیٹ نے کہا،” ہم نے اس واقع کی مذمت کی ہے اور ہم اس میں ملوث وکلا کے خلاف کارروائی کرنے جا رہے ہیں اور اس میں ملوث وکلا کے لائسنس منسوخ کیے جائیں گے۔
پی آئی سی واقعے میں وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف پاکستان کے بڑے شہروں میں وکلا نے عدالتوں کا بائیکاٹ کیا۔ وکلا کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی اور پاکستان بار کونسل کی اپیل پر ہونے والے اس عدالتی بائیکاٹ کی وجہ سے ہزاروں مقدمات کی سماعت متاثر ہوئی۔
لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے ہڑتال کرنے والے وکلا کے مشورہ دیا کہ معاملہ ختم کرنے کے لیے وکلا کی سینیئر قیادت پی آئی سی جائے اور ڈاکٹروں کو گلے لگا کر انہیں پھولوں کا گلدستہ پیش کرے۔ شام کو وکلا کے نمائندے پھول لے کر پی آئی سے گئے۔
شعبہ طب سے وابستہ ڈاکٹروں، پیرامیڈیکس اور دیگر طبی اہل کاروں کی مشترکہ تنظیم گرینڈ ہیلتھ الائنس کے تحت جمعے کی شام لاہور میں ایک مشعل بردار امن ریلی نکالی گئی۔ اس موقع پر خطاب کرتے ہوئے الائنس کے رہنماؤں نے کہا کہ انہیں حکومت کی طرف سے ان کے مطالبات کے حل کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا جا رہا۔ انہوں نے کہا کہ اگر ان کے مطالبات کے حوالے سے کوئی ٹھوس پیش رفت نہ ہوئی تو وہ پیر کے روز اپنے آئندہ لائحہ عمل کا اعلان کریں گے۔
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کے شعبہ ایمرجنسی میں دل کے مریضوں کا علاج معالجہ جزوی طور پر بحال کر دیا گیا ہے۔ ڈاکٹر اور دیگر سٹاف پی آئی سی پہنچ گئے ہیں۔ اس سے قبل پی آئی سی میں ضروری مرمتی کام مکمل کر لیا گیا تھا۔ شہر کے مختلف علاقوں سے مریض پی آئی سی آنا شروع ہو چکے ہیں۔