انصاف کے رکھوالوں نے کی دہشتگردی سرِ عام دیکھتے دیکھتے انصاف کی عزت ہوئی نیلام
2019 جاتے جاتے ہمیں افسوس کرنے کی ایک اور وجہ دے گیا۔ یہ میرا پاکستان آخر کب نکل پائے گا جاہل اور انا پرست لوگوں کی گرفت سے؟ آخر کب تک ہماری سماعتوں میں بے گناہ کی موت پہ ماتم کی گونج چھائی رہے گی۔ جاہلیت، پاکستان کی ترقی کی راہ میں حائل وہ پتھر ہے جو نہ اُسے آگے بڑھنے دیتا ہے بلکہ اپنی وحشت کے بل پہ اسے صدیوں پیچھے دھکیل دیتا ہے۔
یہ لاہور کی تاریخ میں اک اور الم ناک بلکہ یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ شرمناک واقع جو پیش آیا مورخہ 11 دسمبر 2019 کو اس نے انسانیت کی جڑیں مزید کھوکھلی کردیں۔ انا پرستی کا پرچار کرتی وکلاء برادری نے نہ صرف پی۔آئی۔سی کے 12 مریضوں کی جان لی بلکہ اس نے انسانیت اور انصاف پر سے عام انسان کے بھروسے کا قتل کردیا۔
میں صرف یہ پوچھنا چاہتی ہوں کہ وکلاء جب اپنے لئے انصاف ڈھونڈنے پی۔آئی۔سی پر چڑھائی کرنے نکلے تھے کیا ان وکلاء کے لئے عدالتوں کے دروازے بند ہو گئے تھے؟ کیا عام شہری کو انصاف دلانے کا وعدہ کرنے والی برادری کے پاس آخری راستہ دہشتگردی رہ گیا تھا؟ کیا عدالتوں میں انسانیت بچانے والے وکیلوں کے اپنے انصاف کی آواز پی۔آئی۔سی کے مریضوں کے سامنے اُٹھنے پر انصاف کیا جانا تھا؟
یہ کیسا انصاف ہے جو وکلاء حضرات نے ہسپتال میں خوف کی فضا پھیلا کر لینا چاہا؟ یہ کیسا انصاف ہے جس کی قیمت وہاں پہلے سے جان کی بازی لڑتی ہوئیں معصوم جانوں کو چکانی پڑی؟ آخر گورمنٹ کے ہسپتال میں چیزوں کی توڑ پھوڑ سے، ہسپتال میں موجود عملے پر پتھراؤ سے، اور آئی۔سی۔یو میں پڑے بے یارو مددگار مریضوں کے آکسیجن ماسک اُتار کر وہ کیسا نصاف چاہتے تھے؟
کیا پاکستان کا قانون انہیں سرِعام غنڈہ گردی بلکہ میری نظر میں سرِ عام دہشتگردی کرنے کی اجازت دے دیتا ہے؟ کیا وکلاء کسی ڈاکٹر کی اشتعال انگیز تقریر کو انا کا مسئلہ بناتے ہوئے قانون ہاتھ میں لے سکتے ہیں؟
پھر کیوں کر کوئی انصاف کی دھائی وکیلوں کے سامنے دے گا؟ کوئی کیسے یقین کر لے گا کہ انصاف نام کی چیز میسر آ سکتی ہے؟
پھر ایک اور بات میری سوچ سے بالاتر ہے کہ واقعی وکلاء اس بات کا رونا رو رہے ہیں کہ وہ پی۔آئی۔سی کے سامنے پُر امن احتجاج کرنے کے ارادے سے اکٹھا ہوئے تھے؟ کوئی مجھے وضاحت کر دے کہ کیا پُر امن احتجاج میں پستول لے جایا جاتا ہے؟ اور فائرنگ کی جاتی ہے؟ میری ناقص سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ ان 12 لوگوں کا کیا قصور تھا جنہیں اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ وکلاء کی مریضوں کے ساتھ کیا دشمنی تھی؟ میری سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ انسانیت بچانے والے نے انسانیت کو اپنے قدموں تلے کس انا کی خاطر روندھ دیا؟
میری سمجھ میں یہ بھی نہیں آتا کہ جن کے خلاف وکلاء نے آواز اُٹھائی ان کا تو وہ بال بھی باکا نہ کر پائے بلکہ اپنی انا کی آگ ٹھنڈی کرنے کے لیے بے گناہ اور معصوم جانیں چھین لیں۔ وہ جنہوں نے اپنے پیاروں کو اس واقعے کی زد میں کھویا ان کی تو نسلیں وکیلوں کو بد دعائیں دیں گی۔
اپنی انا کی خاطر وکلاء نے نہ صرف اپنی عزت گنوائی بلکہ لوگوں کی نفرت کا بھی شکار ہو گئے۔ اور اب جب کے وکلاء اپنی غلطی ماننے کو بھی تیار نہیں ہیں بلکہ ایسے ڈٹے ہیں جیسے انا پرست نا انصافی پہ ڈٹ جاتا ہے۔ اور آج مجھے اس بات پر بھی یقیں ہوا چلا جاتا ہے کہ انصاف نہیں مگر ہاں قانون اندھا ہوتا ہے۔ وہ نہیں دیکھتا کہ اس کے سامنے کسی بے گناہ کا سر کٹ رہا ہے یا اس کی آڑ میں معصوموں کی لاشیں بچھ رہی ہیں۔
یہ تو صرف اللّہ کا کرم ہے اس قوم پر کہ یہ اب تک بچی ہوئی ہے۔ اگر وقت پر فوج کی طرف سے ایکشنز نہ لیے جاتے تو نہ جانے اور کتنی اموات ہونی باقی تھیں۔ مجھے یہ سوچ کے خوف آتا ہے کہ وکلاء اگر انصاف لینے کے لیے یہ راستہ اختیار کرتے ہیں تو عام عوام ہونے کے ناطے میں کس کے سامنے اپنا مدع رکھوں گی؟ میں کس سے انصاف مانگوں گی؟ کیا مجھے انصاف ایسے انسانیت کی روح مسمار کرتے ہوئے وکلاء دلائیں گے؟ مجھے بتاؤ کہ “اب کون کرے گا انصاف؟ ”