جمعرات کے دن صبح کو ایک دن کے بعد موبائیل پر نیٹ اون کیا اور وٹسپ پر ایک ویڈیو دیکھی جس میں کچھ کالے کوٹ پہنے ہوئے افراد کو فائرنگ کرتے ہوئے اور ڈھنڈے و پتھر مارتے ہوئے دیکھا، شروع شروع میں سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ ہوا کیا ہے، تو فیس بک اون کرنے کا فیصلہ کیا ، جیسے ہی فیس بک اون کیا تو ہر طرف وکلا برادی پر تنقید کا سماء بندا ہوا پایا۔ واقعہ کیا تھا سب کو معلوم ہو ہی گیا ہوگا۔
وکلا برادری و ینگ ڈاکٹرز کے مابین بدھ کے روز ہونے والا تصادم کو پاکستان میں کوئی پہلا واقعہ قرار نہیں دیا جاسکتا ہے اور نہ ہی اس حقیقت سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ مختلف طبقوں، بالخصوص عوام کی مسلسل محرومیوں، مایوسیو ںاور بنیادی ضروریات زندگی کے حصول میں ناکامیوں کی وجہ سے لوگوں کی قوت برداشت کم ہونے لگی ہیں۔ بات بات پر لڑائی جھگڑا معمول بنتا جارہا ہے ، ایک دوسرے پر الزام تراشی اور احتجاج کے نام پر حملے بھی معمول بن گئے ہیں۔ پڑھے لکھے و ڈگری ہولڈرز لوگ جاہلوں سے زیادہ جاہلوں والی حرکات کے مرتکب ہورہے ہیں اور اپنے مخالف کی جان لینے سے بھی گریز نہیں کرتے ، تمام تر سمجھ بوج ہونے کے باوجود وہ ایسے کام کرنے لگے ہیں کہ جس سے ملک و قوم کا سر شرم سے جھکنے لگا ہے۔
قرآن و حدیث میں واضح ارشادات موجود ہے انسانیت کیا ہے انسان کیسے بننا ہے ، قرآن و حدیث کے مطابق ایک انسان کا بھی بلا جواز قتل دنیا کے سارے انسانوں کے قتل کے مترادف ہے ۔ بدھ والے دن لاہور کے ”پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈ لیوجی ”ہسپتال میں کالے کوٹ پہنے ڈھائی سو سے زیادہ وکلا نے حملہ کیا ، کالے کوٹ(وکیل) سفید کوٹ (ڈاکٹر) کے درمیان محاذ آرئی ہوئی ، جس کے نتیجے میں ”پانچ افراد” کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑا اور پندرہ سے زائد زخمی بھی ہوئے، عوام کے ٹیکس کے پیسوں سے بنے ہوئے ہسپتال کو بھی کروڑوں روپوں کا نقصان ہوا۔ حملے کا سب سے اہم پہلوں یہ ہے کہ قانون کے رکھوالوں نے انسانی جانوں کو بچانے والے پر وحشیانہ تشدد کیا ، قانون کا درس دینے والوں نے قانون کی دھجیاںاُڑھائی ، قانون کے ساتھ وہ مذاق کیا کہ پاکستان کے تاریخ میں ایسا کبھی نہیں ہوا کہ قانون کے پاسداران ہی اس طرح کھولے عام قانون شکن ہوئے ہو، یہ سانحہ کیوں ہوا کس محرکات پر ہوا یہ بھی لمبی تفصیل ہے ، مگرجس طرح قانون دانوں نے سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا پولیس موبائیل کو آگ لگائی۔
عام عوام کی گاڑیوں کے شیشے تھوڑے، ہسپتال میں توڑ پھوڑ کی خواتین کے ساتھ بدتمیزی کی اس سے بڑی تباہی آسکتی تھی ، بجا طور پر اسی غنڈگردی کو دہشت گردی سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ بانی پاکستان محمد علی جناح خود بھی ایک وکیل و قانون دان تھے ، انہوں نے برصغیر کے مسلمانوں کے لیے الگ ملک قانونی جنگ لڑ کر حاصل کیا ، انہوں نے کبھی بھی مسلمانوں کو اشتعال میں لانے کی کوشش نہیں کی ، نہ ہی جلائو گھیرائواور قتل عام کی جانب کسی کو راعب کیا ۔آج اگر ان کو روح کی اس بات کا علم ہوا ہوگا تو ان کا سر بھی شرم سے جھک گیا ہوگااور ان کو کافی تکلیف بھی ہوئی ہوگی۔ قائد اعظم محمد علی جناح کے ملک میں اسلام کے نام لیوا اورقانون کی حفاظت و وکالت دعویٰ گیروں نے جس طرح بدھ والے دن لاہور میں جود نگا فساد برپا کیا اور انسانوں کی جانوں سے کھیلتے رہے، اس کی وجہ سے وکالت جیسے مقدس پیشے پر وہ داغ لگا ہے جس کو دھونے سے بھی صاف نہیں کیا جاسکتا ہے ۔
سانحہ” پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈ لیوجی ” کے ایک روز بعد یعنی جمعرات کے روز اسلام آباد کے انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی میں ایک قوم پرست طلبہ تنظیم نے دوسرے طلبہ تنظیم (جمعیت طلبہ اسلام)کی تقریب پر حملہ کیا جس سے یونیورسٹی میدان جنگ بن گئی اور تصادم کے نتیجے میں ایک شخص جاں بحق اور 15زخمی ہوئے ، جماعت اسلامی کے مرکزی نائب امیر لیاقت بلوچ بال بال بچ گئے ۔ یہ دونوں سانحات نے حکومت کی کارکردگی پر مزید سوالیا نشان آویزہ کر دئے ہیں۔
لاہور اور اسلام آباد کے ان واقعات کے بعد ہمیں اندازہ ہو جانا چاہیے کہ حالات کس طرف جا رہے ہیں۔ جامعات میں لڑائی جھگڑے ہیں، ہسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والوں میں عدم تحفظ ہے اور عدالتوں میں حصول انصاف کے لیے آنے والے بھی خوار ہو رہے ہیں۔ کیا یہ سب چیزیں اچانک اور ازخود ٹھیک ہو جائیں گی یقیناً ایسا نہیں ہے۔ یہ تمام واقعات سوچے سمجھے کھیل کا حصہ ہیں وہ طاقتیں جو کچھ عرصہ قبل پاکستان کے معاشی گڑھ کراچی پر قبضہ کیے بیٹھی تھیں، وہ طاقتیں جنہوں نے کراچی کے امن کو تباہ کیا تھا کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ ان طاقتوں نے اپنا مرکز بدل لیا ہے اور انہوں نے پنجاب میں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔ پنجاب میں ہونے والے پے در پے واقعات کے بعد نہ چاہتے ہوئے بھی ہم اس انداز میں سوچنے پر مجبور ہیں۔ اعلی حلقوں میں اس حوالے سے ہونے والی گفتگو تشویش میں اضافہ کر رہی ہے۔ حکومت کو بھی اپنی ذمہ داریاں نبھانے کی ضرورت ہے۔ پاکستان بلالخصوص پنجاب کی دکھوں ماری عوام اپنے منتخب وزیر اعظم کی طرف دیکھ رہی ہے۔ ملک کے سب سے بڑے صوبے کو سازشیوں، نالائقوں، مفاد پرستوں، دہشت گردوں، غنڈوں، ناجائز منافع خوروں اور جرائم پیشہ افراد سے بچانے کے لیے وزیراعظم کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے ہونگے اور ”پنجاب کو وکلا و طلبہ گردی سے بچانا ہوگا”۔۔
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ یااللہ ہم سب کو ہدایت عطا فرما (آمین)