16 دسمبر 2014 کا دن ہماری ملکی تاریخ کا ایک المناک باب ہے جب کئی مائو ں کی گودیں اجاڑ دی گئیں۔جس دن تحریک طالبان کے سات دہشت گرد وںنے تمام اخلاقی اقدار،اسلامی تعلیمات اور قوانین کو روندتے ہوئے آرمی پبلک سکول پشاور پر حملہ کیا۔وہاں تعلیم حاصل کرتے پھولوں کی مانند بچوں کو گولیوں سے چھلنی کرتے ہوئے خون سے نہلا یاگیا اور سکول کی پرنسپل کو آگ لگا کرزندہ جلایا گیا۔اس سانحہ میں 144 افراد شہیداور متعدد زخمی ہوئے شہید ہونے والوں میں 132معصوم طالبعلم تھے ۔اس موقع پر ایک شعر یاد آرہا ہے کہ
اکثر جنازوں پر پھول دیکھے تھے پھولوں کے جنازے پہلی بار دیکھے
اس سانحہ کوسرانجام دینے والے تمام دہشت گردوں کو موقع پر ہی جہنم واصل کردیا گیا تھالیکن پاکستان کی تاریخ کے اس ہولناک اور درد ناک واقعہ پر ہر دل رنجیدہ اور ہر آنکھ اشکبار تھی۔اس بزدلانہ حملے سے دہشت گرد پاکستانی اداروں اور قوم کے عزم و ہمت کونا توڑ سکے ۔ دکھ کی اس گھڑی میںقوم کے ساتھ ساتھ سیاستدانوں نے بھی یکجہتی کا مظاہرہ کیا ۔عمران خان ملکی تاریخ کا سب سے بڑا دھرنا ختم کرکے پشاور پہنچے اور زخمیوں کی عیادت کی۔
اس واقعہ نے ہمیں بحثیت قوم متحد کردیا اور اس امر پریک زباں کردیا کہ دہشت گردی، انتہاپسندی اور حیوانیت کا یہ کھیل ختم ہونا چاہیے اس کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھاناناگزیرہے۔اس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف نے اچھے اور بُرے طالبان کی بجائے سب دہشت گردوں کے خلاف فیصلہ کن لڑائی لڑنے کا اعلان کیا۔ پاکستان کی عسکری اور سول قیادت بشمول اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھ گئی اور دہشت گردی کے اس ناسور سے نمٹنے کا مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیا جسے نیشنل ایکشن پلان کا نام دیا گیا ۔اس پلان کے تحت ملک بھر میں سرچ آپریشنز شروع ہوئے اور شمالی وزیرستان میں پہلے سے جاری ضرب عضب کو مزید تیز کردیا گیا ۔یاد رہے کہ سانحہ آرمی پبلک سکول ضرب عضب کی کامیاب کاروائیوں کا ہی انتقام تھا جو بزدل دہشت گردوں نے معصوم بچوں سے لیا۔
ان آپریشنز میں دہشت گردوں کو چن چن کر انکے سلیپنگ سیلز اور ٹھکانوں سے نکال کر واصل جہنم کیااورسینکڑوں کو گرفتار کیا۔دہشت گردوں کے ٹھکانوں،اسلحہ کی فیکٹریوں ،بارود خانوں کوبھی تباہ کیا گیا۔نیشنل ایکشن پلان کے تحت غیر قانونی طور پر پاکستان میںمقیم35000 کے قریب ا فغانیوں کو گرفتار کرکے بے دخل کیا گیا،پاکستان میں سزا ئے موت پر عمل درآمد شروع کیا گیااور فوجی عدالتوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔فوجی عدالتوں میں دہشت گردی کے مقدمات چلائے گئے اور تیز ترین ٹرائل مکمل کر کے پچاس سے زائد دہشت گردوں کو پھانسی پر لٹکا یا گیاسال 2015میں سانحہ آرمی پبلک سکول میں ملوث چار دہشت گردوں کو بھی سزائے موت دے دی گئی۔
تاہم پوری قوم میں اس سانحہ سے جو غم و غصہ بھرا ہوا تھا اس صورت حال کے تحت دہشت گردوں کے خلاف زیرو ٹالرنس پالیسی اختیار کرناحالات کا تکازہ تھا۔اس سانحہ کے بعد دنیا نے دیکھا کہ کس طرح پاکستان دہشت گردی کے خلاف سینہ سپر ہوا اوردہشت گردی کا قلع قمع کیا۔آرمی پبلک سکول پر حملہ کرکے دہشت گردوں نے جو132 پھول مسل دیے تھے وہ امر ہوگئے اور آج ان کو وطن کا بچہ بچہ خراج تحسین پیش کرتا ہے۔
ان پھولوں کی خوشبو سے آج ہر جانب امن کی فضا قائم ہے۔ویسے تو اس ملک کیلئے سکیورٹی فورسز نے بے شمار قربانیاں دی ہیں لیکن ان نونہالوں کے لہو سے اس چمن کی جو آبیاری ہوئی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ آج اس سانحہ کو پانچ سال بیت گئے لیکن اس کا کرب آج بھی ختم نہیں ہوا ۔ ہرسال دسمبر آتا ہے اورسانحہ کے پھر زخم تازہ ہوجاتے ہیں اور آنکھوں کے خشک چشمے پھر سے اُبھر آتے ہیں اور دل سے بس یہ ہی دعا نکلتی ہے کہ
بچے سکول جائیں اور واپس گھر نہ آئیں یااللہ ایسا دسمبر پھر نہ آئے