حکومت ن لیگ کی ہو یا تحریک انصاف کی مگر ہر دور کے دوران مختلف مظاہروں، ریلیوں اور دھرنوں کا سلسلہ چلتا رہتا ہے، ہمیشہ کی طرح ہی حکومت ان دھرنوں اور احتجاج کے شرکاء کو نظر انداز کرکے ملکی امور کو چلانے میں محو رہتی ہے، ان مظاہروں کے مطالبات میں اکثرا وقات ہی سیاسی مقاصد نظر آتے ہیںجس کے باعث حکومتی جماعت کے چند عہدیداران مظاہرے کی قیادت کرنیوالوں سے مذاکرات کرکے ان کے واپس بھیج دیتے ہیں، مگر محض مذاکرات کبھی کسی مسئلے کا حل نہیں بن سکے اور نا مظاہرین کے احتجاج کو ختم کروانے سے مسئلے حل ہوتے ہیں۔ پاکستان کا کسان جس کی حالت دن بدن خراب ہی ہوتی جارہی ہے مگر حکومت پاکستان کا اناج پوراکرنیوالے کسان کی حالت زار پر توجہ دینے سے قاصر ہے۔ یہ کسان متعدد بار ایوانوں میں بیٹھ کر اس شعبہ کے فیصلے کرنیوالے وزراء کے سامنے بھی اپنے مسائل بیان کرچکے ہیں مگر ہمیشہ ہی انہیں دلاسے اور تسلیاں دے کر واپس بھجوا دیا جاتا ہے،ہرمرتبہ کسان حکومتی وزراء سے مذاکرات کے بعد ایک نئی امید کے ساتھ واپس لوٹتے ہیں مگر بدقسمتی کے ساتھ شعبہ زراعت سے غیر آشنا افرادنے ہمیشہ ہی کسانوں کی امیدوں کا چکنا چور کیا۔
وہ کسان جو فصل کی تیاری کے دوران اپنے مال اسباب سمیت سونا ،چاندی سمیت ہر وہ چیز بیج دیتا ہے جس سے اس کو پیسے مل سکیں اور وہ روپے اپنی فصل پر خرچ کرتا ہے اور ہمیشہ ہی کسان فصل کاٹتے وقت سال بھر کی پریشانیوں کو پس پشت ڈال کر پرامید دکھتا ہے مگر بدقسمتی کے ساتھ انہی دنوں میں حکومت کے ناقص پلان کے باعث کبھی فصل کے امدادی ریٹ مقرر نہیں ہوتے تو کبھی فصل کی خریدوفروخت کا آغاز نہیں کیا جاتا ہے جس کے باعث کسان کی فصل منڈیوں میں پڑی پڑی ہی تباہ جاتی ہے اور کسان کو ہر سال ہی فصل میں شدید مالی خسارے کا سامنا رہتا ہے جس کی وجہ کسان سال بھر پریشانیوں کی چکی میں بری طرح کچلاجاتا ہے۔ زراعت کے شعبہ کی نمائندہ جماعت پاکستان کسان اتحاد کی قیادت نے بھی بیسیوں مرتبہ اپنے مسائل کو لے کر ایوانوں کے سامنے دھرنے دیئے مظاہرے کیے اور اعلیٰ حکام کے دروازوں پر دستک دی مگر ہمیشہ ہی ان کسانوں کو مظاہرے کے دوران ان مطالبے کر جائز قرار دے کر تسلیم کردیا جاتا ہے مگر حکومت کبھی ان کے مطالبا ت پر عمل درآمد نہیں کرسکی۔رواں مرتبہ بھی کسانوں کو کچھ اسی طرح کے مسائل کا سامنا ہے وہ کسان جو تحریک انصاف کی حکومت سے پر امید تھے اس جماعت نے اقتدار میں آتے ہی انہی کسانوں کو کچلنے کی کوششیں کیں۔
حکومت نے زرعی ٹیوب میں استعمال ہونیوالی بجلی کے ریٹ میں فی یونٹ کئی گناہ اضافہ کیا جس پر کسانوں نے احتجاج کیا او ربلوں کو آگ لگا کر حکومت سے رحم کی اپیل کی جس پر حکومت نے سابقہ روایات کو برقرار رکھا اور مذاکرات میں ریٹ کم کرنے کی یقین دہانی کروائی مگر احتجاج ختم ہونے کے بعد ان بے بس کسانوں کی سننے والا کوئی نہ تھا، حکومت نے کھادوں کی قیمتوں میں اضافہ کردیا جس پر کسان اتحاد کی قیادت نے حکومت سے مذاکرات کے دوران اپیل کی حکومت کھادوں کی قیمتوں پر جو 5 سو سے لے کر1 ہزار تک فی بوری حکومتی منافع ہے اس کو کم کردے مگر حکومت نے صاف انکار دیا جس کے بعد کسان اتحا دنے قیادت نے ایک بار پھر احتجاج کا فیصلہ کرتے ہوئے 18 دسمبر کو اپنے بچوں سمیت پارلیمنٹ ہائوس کے گھیرائو کی کال دے دی۔اس احتجاج میں کسانوں نے اپنے مسائل حکومت کے سامنے رکھنے کا انوکھا طریقہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے ، جس میں کسان اپنے بچوں کو لے کر اسلام آباد جائیں گے اور پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے ”بچے برائے فروخت”کا سٹال لگائیں گے جس سٹال پر ملک بھر سے آئے ہزاروں کسان اپنے بچوں کو علامتی طور پر فروخت کیلئے پیش کریں گے۔
اس سلسلہ میں بات چیت کرتے ہوئے پاکستان کسان اتحاد کے صوبائی صدر چوہدری رضوان اقبال نے کہاکہ زراعت کی موجودہ حالت انتہائی خطرناک ہوتی جارہی ہے،حکومت کسی بھی صورت میں کسانوں کے مطالبات کو تسلیم کرنے کوتیار نہیں ہے،ہم احتجاج نہ کریں تو پھر کیا کریں،بے بس کسان کی سننے والا کوئی نہیں ہے۔ان کا کہنا تھا کہ ہمارے زرعی ٹیوب ویل کے بل تقریباً دو سو فیصد بڑھا دیئے گئے ہیںجبکہ کھادوں کی قیمتوں میں تقریباًایک سو فیصد اضافہ کردیا گیا ہے، گزشتہ چند سالوں سے بری طرح کچلے جانیوالے کسان میں اب فصل کو تیار کرنے کی سکت نہیں رہی ،کسان نے اب تک پاکستان کے کسان نے اپنا مال ،مویشی اور زیور کو بیچ کر فصل کو تیار کیامگر اب کسان کے پاس بچوں کے سوا کچھ نہیں ہے جس پر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم 18 دسمبر کو ملک کی 80 فیصد آبادی جو زراعت کے شعبہ سے وابستہ ہے وہ پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے اپنے بچوں کو علامتی طور پر فروخت کیلئے پیش کرے گی تاکہ شاید کسان کے اس قدم سے حکومت کو کسان پر ترس آجائے ۔ان کی بات سننے اور تمام تر صورتحال کو دیکھنے کے بعد میرا قلم یہ الفاظ لکھنے پر مجبور ہو گیا کہ مسائلوں کا حل دھرنوں کے سوا کچھ نہیں ہے۔