مودی حکومت نے بڑی خوش فہمی کے ساتھ پارلیامنٹ میں شہریت ترمیمی بل پیش کرتے ہوئے جلد از جلد قانون کی شکل دینے کو تو دے دیا۔ لیکن پورے ہندوستان میں جس طرح اس شہریت ترمیمی قانون کے خلاف بلا تفریق مذہب و ملّت، احتجاج، مظاہرے اور ہنگامے شروع ہوئے ، وہ مودی اور شاہ کے لئے خلاف توقع ہے۔ ان دونوں نے تو سوچا تھا کہ اس قانون کے بنتے ہی ملک لوگ ان کی حمایت میں اتر آئینگے اور ان کی جئے جئے کار ہوگی۔ اس لئے کہ یہ قانون دراصل’ مسلم مکت بھارت ‘کے خواب کو پورا کرنے والا ہے۔لیکن ہندوستان جو صدیوں سے ہندو، مسلم اتحاد و اتفاق کا گہوارہ رہا ہے اور آزادی کے بعد سے ملک میں نافذہونے والے آئین اور جمہوری قدروں پر نازاں ہے ۔ وہ کیسے بھارت کے مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بند منظم سازش کو کامیاب ہوتے دیکھتے۔ نتیجہ میں ایسے لوگ کھل کر اس کالے قانون کی مخالفت میں سڑکوں پر اتر گئے اور جو کچھ ہو رہا ہے ، وہ یقینی طور پر مودی اور شاہ کی نیند اڑانے والا ہے۔
یوں تو مودی ،شاہ کے خلاف کئی طرح کے نعرے لگتے رہے ہیں ۔ لیکن اس کالے قانون کے سامنے آنے کے بعد پہلی بار سابق ممبر لوک سبھا پپو یادو نے ‘مودی گدّی چھوڑو’ کا نعرہ دیا ۔ جس کی پاداش میں انھیں پٹنہ میں ‘ہاؤس ائیریسٹ’ کر لیا گیا ہے۔شہریت ترمیمی قانون بننے کے اس پورے منظر نامے پر ہم ایک نظر ڈالیں تو جوحقائق ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ وہ یہ ہیں کہ بی جے پی کی دوبارہ مرکز میں حکومت بنتے ہی پورے ہندوستان میں زبردست مہنگائی ، بے روزگاری، صنعتی زبوں حالی اور اقتصادی بد حالی پر تنقید اور ناکام حکومت کی ناکام پالیسیوں پر ہنگامے شروع ہو گئے۔ ملک کے عوام پریشان حال اور ماہرین اقتصادیات فکر مند ہیں کہ بڑھتی کساد بازاری اور افراط زر مندی کے باعث جس تیزی سے ملک تباہی و بربادی کے دہانے پر پہنچ گیا ہے ۔ کس طرح ملک کی معیشت کو پٹری پر لا کر عوام الناس کی پریشانیوں کو دور کیا جائے۔
ملک کے لوگوں کی یہ توقع تھی کہ ایسے نا گفتہ بہ حالات میں بی جے پی کی دوبارہ اقتدار میں آنے والی حکومت یقینی طور پر ملک کی معیشت کی بہتری کے لئے ضرور ایسے اقدام کرے گی ، جس سے ملک کی بے حد سست پڑ رہی ترقی کی رفتار میں تیزی لا کر اپنے شاندار نعرے ‘ سب کا ساتھ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس’ کو عملی جامہ پہنا کر غربت ، مہنگائی اوربے روزگاری جیسے بے حد بنیادی مسئلے کو حل کرنے کی سنجیدہ تدابیر کرے گی۔ لیکن حکومت بس ہندو مسلمان ، تین تلاق، دفعہ 370 ، مندر مسجد کی راگ الاپتی نظر آئی اور عوام کے بنیادی مسئلہ کے تدارک کی کوئی عملی کوشش نظر نہیں آئی۔ایسے حالات میں عوام کے درمیان غم و غصّہ اور اعتراض و احتجاج کی صدا گونجنے لگی۔ایسے بد تر حالات میں جب حکومت نے دیکھا کہ تلاق ثلاثہ ،دفعہ 370 کا خاتمہ اور مندر مسجد کا مدعا بھی، بڑھتی مہنگائی ،غربت، بے روزگاری اور بہت تیزی سے ڈوبتی معیشت کے سامنے ناکام ثابت ہو رہا ہے۔ ایسے میں ترپ کا پتّہ بنا کر پارلیامنٹ میں شہریت ترمیمی بل پیش کر دیا۔ اس شہریت ترمیمی بل کو بے حد عجلت میں ‘نوٹ بندی’ کی طرح عوامی طور پر بغیر کسی مباحث اور صلاح بلکہ وزارت قانون کے مشوروں کے پارلیامنٹ میں اس انداز سے پیش کیا ، جیسے اس بل کے قانون بنتے ہی ملک کے سارے مسئلے یکلخت حل ہو جائینگے۔
حالانکہ پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں میں بحث کے دوران اس متنازعہ بل کی زبردست مخالفت ہوئی اور حکومت کو یہ باور کرانے کی کوشش کی گئی کہ یہ بل کسی بھی لحاظ سے ملک کے مفاد میں نہیں ہے اور یہ بل آئین اور دستور ہند کے خلاف ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 14 اور 15 کے تحت ہندوستان کے تمام شہریوں کو مساوی حقوق دئے گئے ہیں اور اس میں مذہب کی بنیاد پر کسی بھی طرح کے تعصب اور امتیازی سلوک کی تردید کی گئی ہے۔ نیز ساورکر جیسے لوگوں کے ہندو راشٹر کا خواب دیکھنے والوں کی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے بابا بھیم راؤ امبیڈکر نے بھی کہا تھا کہ اس ملک کو کبھی ہندو راشٹر بنانے کی کوشش کی گئی تو یہ ملک کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں کے سنجیدہ ،سیکولر اور ملک سے محبت کرنے والے افراد نے بہت سمجھانے کی کوشش کی کہ اگر یہ بل پاس ہو کر قانون بن گیا اور اسے نافذ کرنے کی کوشش کی گئی تو اس کے نتائج بہت ہی خطرناک ہونگے، بلکہ یہ آگ سے کھیلنے کے مترادف ہوگا ۔ لیکن دراصل اس وقت پانچ ٹریلئن ڈالر کی معیشت کا عزم پورا کرنے کی شیخی بگھارنے والے پر چہار جانب سے ملک کی بڑھتی مہنگائی، بے روزگاری اور ملک کی معیشت کے آئی سی یو میں پہنچ جانے کے باعث پورے ملک میں جس طرح سے عوامی احتجاج اور تنقید شدت اختیار کرنے لگی تھی۔
ان ہنگاموں سے گھبرا کر اوراپنی تمام ترناکامیوں سے لوگوں کا دھیان ہٹانے نیز ایک تیر سے کئی شکار کرنے کے عادی اسی شہریت تمرمیمی بل اور قانون کے گرد پورے ملک کو الجھا دینے میں عافیت سمجھتے ہوئے ،بہت عجلت میں بل کو قانون بنا دیا گیا ۔ لیکن اس بل کے پارلیامنٹ میں پیش ہوتے ہی ملک کے طول و عرض میں اس کے خلاف جو سگبگاہٹ تھی ، اس نے بل کے قانون بنتے ہی شدّت اختیار کر لی اور پورا ملک مودی اور شاہ کی نا عاقبت اندیشی اور ضرورت سے زیادہ خوش فہمی کے باعث سلگ اٹھا۔ یہ احتجاج اور مظاہرے یقینی طور پر ملک میں سیکولرازم پر یقین رکھنے والوں کے لئے متوقع تھی ۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے لئے غیر متوقع ہے۔ اقتدار کے نشے میں چور ان دونوں کی نگاہ میںدراصل ‘ تفرقہ ڈالو اور حکومت کرو’کی پالیسی پر عمل کرنا ہی کامیابی کا ضامن تصّور کرتے ہیں ۔ ان دونوں نے ہی ملک کی صدیوں سے چلی آ رہی گنگا جمنی تہذیب اور ملک کی یکجہتی، رواداری اور بھائی چارگی کی شاندار روایات کو سمجھنے میں بھاری بھول کی ۔ یہی وجہ ہے کہ پارلیامنٹ کے دونوں ایوانوں سے شہریت ترمیمی بل کو بہت ہی شاطرانہ انداز میں پاس کرانے کے بعد اپنی پیٹھ تھپ تھپاتے ہوئے وزیراعظم نریندر مودی نے بڑے فخریہ انداز میں کہا تھاکہ یہ شہریت ترمیمی بل ایک تاریخی بل ہے اور اسے تاریخ کے صفحات پر سنہری حروف میں لکھا جا ئے گا ۔
وزیراعظم کے بعد خود سر سربراہ وزیر داخلہ امت شاہ بھی اپنی کامیابی پر ناز کرتے ہوئے بتایا کہ 2014 ء کے انتخابی منشور میں شہریت ترمیمی بل کا جو وعدہ کیا تھا ، اسے حکومت نے پورا کیا ۔ ان دونوں کی ان باتوں سے ان کے ذہنی دیوالیہ پن کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس وقت جب کہ پورا ملک معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے۔ انھیں فکر اس بات کی ہے کہ کس طرح مسلم مکت بھارت اور ہندو راشٹربنانے کے راستے ہموار کرنے کے لئے، ملک کے لئے ہر طرح کے ایثار اور قربانی پیش کرنے والے اور اپنے خون جگر سے ملک کو سینچنے والے یہاں کے مسلمانوں کو خوف و دہشت میں مبتلا کر ان پر ظلم و زیادتی ،بربریت ،اور غیر منصفانہ عمل سے انھیں پوری طرح حاشیہ پر ڈال کر ملک کے غیر مسلموں کے درمیان اپنے ووٹ کو بینک کو پوری طرح مستحکم کر لیا جائے اور پچاس سال تک ملک کے اقتدار پر قابض رہنے کا خواب پورا کیا جائے ۔ انھیں اس بات کی قطئی فکر نہیں ہوئی کہ پورے ملک میں اس قانون کے خلاف رائے عامّہ تیار ہو رہا ہے ۔
ملک کے 1047 سے زائد سرکردہ سائنس دانوں اور دانشوروں نے اپنے مشترکہ بیان میں بہت ہی واضح طور پر kill The Bill کہہ کر متنبہ کر نے کی کوشش کی تھی۔ان کے علاوہ بہت بڑی تعداد میں فلموںاور دوسرے شعبئہ حیات کے سرکردہ فنکاروں نے بھی اس کالے قانون کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج شروع کر چکے ہیں۔ ملک کے طول و عرض کے علاوہ بیرون ممالک میں بھی اس غیر آئینی قانون کے خلاف ناراضگی اور تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام لوگ حکومت ہند کی اس بات کو بخوبی سمجھ رہے ہیں کہ اس قانون کے پس پشت دراصل حکومت اپنی ناکامیوں کو چھپانے اور پارٹی کے’ ہنودتو’نظریہ کو عملی جامہ پہنانا ہے۔ لوگوں کی ناراضگی اور تشویش اس لئے بھی ہے کہ دنیا بھارت کو ایک سیکولر اور گنگا جمنی تہذیب کے علمبرداراور ایک مضبوط جمہوری ملک کے طور پر جانتی ہے۔ اس لئے بیرون ممالک میں بھی اس کالے قانون کی تنقید کی جا رہی ہے بلکہ اس کے خلاف غم و غصّہ کے اظہار کے ساتھ ساتھ احتجاج اور مظاہروں کا سلسلہ بھی شروع ہو گیا ہے ۔
گرچہ حکومت ہند کی جانب سے اسے ملک کا اندرونی معاملہ بتا کر خاموش رہنے کی گزارش کی گئی ہے۔ لیکن یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ جہاں پر انسانیت کو شعوری طور پر پامال کیا جا رہا ہو ، وہاں پر انسان کی انسانیت جاگے نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ یوروپی یونین نے اس ضمن میںتوقع کا اظہار کیا ہے کہ بھارت اپنے شاندار اور اعلیٰ قدروں کو برقرار رکھے گا۔ امریکہ کی وفاقی حکومت کا کمیشن(USCIRF) جو کہ 1998 ء کے بین الاقوامی مذہبی آزادی قانون کے تحت قائم کیا گیا تھا ۔ اس نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ شہریت ترمیمی بل ہندوستان کے سیکولر تنوع سے بھرپور تاریخ اور آئین کے برعکس ہے، جو قانونی ایقان کی بنیاد پر مساوات کی ضمانت دیتا ہے۔ امریکی کمیشن نے حکومت ہند کی جانب سے اٹھایا گیا خطرناک قدم بتاتے ہوئے ، وزیر داخلہ امیت شاہ اور خاص لوگوںکی امریکہ آمد پر پابندی لگانے کی بھی بات کہی ہے ۔ واضح رہے کے امریکی کمیشن اس سے قبل بھی ملک کے اندر پھیلتی فرقہ واریت ،فسادات، ماب لنچنگ اور ایسے کئی دوسرے مسئلوں پر تنقید کر چکا ہے۔
حالیہ ہنگامے پر اقوام متحدہ بھی خاموش نہیں رہا اور حقوق انسانی کی ترجمان حریمی لارنس نے بہت اچھی بات کہی کہ جب بھارت کے قوانین میں شہریت دینے کے لئے کئی قانون قبل سے ہی موجود ہیں تو پھر اس نئے شہریت دینے والے قانون کیا ضرورت ہے۔ یہ نیا شہریت ترمیمی قانون لوگوں کے اندر تفرقہ پیدا کرے گا۔ جو انسانی حقوق کی نفی کرتا ہے۔ لارنس نے مذید کہا کہ صرف 12 ماہ قبل ہی بھارت ‘ ‘گلوبل کومپیکٹ فار سیف’ ‘پر اپنی رضامندی ظاہر کر چکا ہے ۔اقوام متحدہ نے شہریت ترمیمی قانون کے سامنے آنے کے بعد ملک کے اندر بڑھتے تشدد پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مخالفت اور مظاہروں کے درمیان ہونے والی دو انسانوں کی موت پر بھی افسوس ظاہر کیا ہے ۔ ایک طرف جہاں جاپان کے وزیر اعظم شینز آبے نے بھی اپنا دورہ ہند رد ّ کر دیا ہے۔ بنگلہ دیش کے وزیر خارجہ ڈاکٹر اے کے عبد المؤمن نے بھی شہریت ترمیمی بل پر اپنی ناراضگی طاہر کرتے ہوئے ہندوستان کے دورہ کو منسوخ کر دیا ہے اور وزیر داخلہ امیت شاہ کے بار بار بنگلہ دیش سے ہندوستان میں گھُس پیٹھیوں کے داخلے کا ذکر کرنے پر انھوں نے کہا کہ حکومت ہند بھارت میں ناجائز طریقے سے رہنے والے بنگلہ دیشیوں کی فہرست مہیا کرائے ، تاکہ ہم ان لوگوں کو واپس بلا سکیں ۔
وزیر خارجہ بنگلہ دیش نے یہ بھی کہا ہے کہ یہ بات کم مضحکہ نہیں ہے کہ اسی سال جولائی ماہ میں ملک کے اندر داخل ہونے والے در اندازوں کی تعداد کے متعلق لوک سبھا میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مودی حکومت کی جانب سے یہ جواب دیا گیا تھا کہ ایسے در اندازوں کا کوئی اعداد و شمار موجود نہیں ہے، یعنی تصّورکیجئے جس مسئلہ کو اتنا بڑا بتایا جا رہا ہے ،اس کے اعدادو شمار تک حکومت ہندکے پاس نہیں ہیں ۔ ملک میں ہو رہے پُر تشدد احتجاج اور مظاہروں کے باعث امریکی اور برطانوی حکومت سمیت کئی ممالک نے اپنے شہریوں کے لئے ا یڈوائزری جاری کرتے ہوئے ٹریول الرٹ کیا ہے۔ ان کے علاوہ بھی جس طرح سے دنیا کے مختلف ممالک میں حکومت ہند کے ایسے غیر آئینی، غیر جمہوری اور غیر انسانی کوششوں کو ہدف ملامت بنایا جا رہا ہے ، وہ بہر حال موجودہ حکومت کی رسوایوں کا ہی باعث بن رہا ہے ۔ ملک کے اندر اس کالے قانون کے خلاف ہو رہے احتجاج اور مظاہروں کو ناکام کرنے کے لئے حکومت ہند نے جس طرح دلی پولیس کے ذریعہ بربریت کا مظاہرہ جامعہ ملیہ، دہلی کے طلبا و طالبات پر کیا گیا ۔ اس پر مہاراشٹر کے وزیر اعلیٰ اور شیو سینا رہنما ادھو ٹھاکرکا یہ بیان کہ دلی پولیس نے اپنی بربریت دکھا کر جلیان والا باغ کی یاد دلا دی ، یہ کہہ کرحکومت ہند کی ناکامی اور ظلم اور زیادتی کی کہانی بیان کر دی ہے۔