2 ججز نے سزائے موت دی، ایک نے بری کیا: سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

راولپنڈی (اصل میڈیا ڈیسک) اسلام آباد کی خصوصی عدالت نے سنگین غداری کیس کا تفصیلی فیصلہ جاری کر دیا جس میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت دینے کا حکم دیا گیا ہے۔

169 صفحات پر مشتمل تفصیلی فیصلے میں تین رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس وقار احمد سیٹھ اور جسٹس شاہد کریم نے سزائے موت کا فیصلہ دیا جب کہ جسٹس نذر اکبر نے فیصلے سے اختلاف کیا اور پرویز مشرف کو تمام الزامات سے بری کیا۔

فیصلے کے مطابق جنرل (ر) پرویزمشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے اور ہر جرم پر انہیں ایک بار سزائے موت دی جائے۔

خصوصی عدالت نے اپنے فیصلے میں پرویز مشرف کو بیرون ملک بھگانے والے تمام سہولت کاروں کو بھی قانون کےکٹہرےمیں لا نے کا حکم دیا اور فیصلے میں اپنی رائے دیتے ہوئے جسٹس وقار سیٹھ نے پیرا 66 میں لکھا ہے کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہوجائیں تو لاش کو ڈی چوک پر لاکر تین دن تک لٹکایا جائے۔

فیصلے کے اہم نکات:

سزائے موت سنانے والے دو ججز کا فیصلہ 25 صفحات پر مشتمل ہے جب کہ جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ 44 صفحات پر مشتمل ہے۔
جسٹس سیٹھ وقار اور جسٹس شاہد فضل نے فیصلے میں لکھا ہے کہ جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا۔
دونوں ججز نے اپنے فیصلے میں لکھا کہ آئین توڑنے، وکلاء کو نظربند کرنے اور ایمرجنسی کے نفاذ کا جرم ثابت ہونے پر پرویز مشرف کو سزائے موت دی جائے اور انہیں اس وقت تک لٹکایا جائے جب تک ان کی جان نہ نکل جائے۔
خصوصی عدالت نے تفصیلی فیصلے میں جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو 5 بار سزائے موت کا حکم دیا ہے۔
فیصلے میں لکھا گیا ہے کہ پرویز مشرف پر 5 چارج فریم کیے گئے تھے، مجرم کو ہر جرم کے حوالے سے ایک بار سزائے موت دی جائے۔
جسٹس نذر اکبر نے اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا کہ جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کے الزامات ثابت نہیں ہوتے۔
میں نے ادب سے اپنے بھائی وقار احمد سیٹھ، صدر خصوصی کورٹ کا مجوزہ فیصلہ پڑھاہے، جسٹس نذر اکبر کا اختلافی نوٹ
جنرل ریٹائرڈ پرویزمشرف نے 2007 میں ایمرجنسی نافذ کی ایمرجنسی کی لفاظی مختلف کرنے سے مارشل لاء لگانے کے اثرات کم نہیں ہوتے۔
دو ججز نے پرویز مشرف کو پھانسی جب کہ ایک جج نے انہیں بری کیا ہے۔
دو ججز نے فیصلے میں لکھا کہ جمع کرائے گئے دستاویزات سے واضح ہے کہ ملزم نے جرم کیا، ملزم پر تمام الزامات کسی شک و شبہ کے بغیر ثابت ہوتے ہیں۔
جسٹس وقار سیٹھ نے فیصلے میں لکھا کہ پھانسی سے قبل پرویز مشرف فوت ہو جاتے ہیں تو لاش ڈی چوک لائی جائے جب کہ جسٹس شاہد کریم نے جسٹس وقار کے اس نقطے سے اختلاف کیا۔
پرویز مشرف کو سزا کی حمایت کرنے والے ججز نے لکھا کہ سزائے موت کا فیصلہ ملزم کو مفرور قرار دینے کے بعد ان کی غیر حاضری میں سنایا گیا۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ اعلٰی عدلیہ نے نظریہ ضرورت متعارف نہ کرایاہوتا توقوم کویہ دن نہ دیکھنا پڑتا
نظریہ ضرورت کےباعث باوردی افسر نے سنگین غداری کے جرم کا ارتکاب کیا، تفصیلی فیصلہ
اس نتیجے پرپہنچے ہیں جس جرم کاارتکاب ہوا وہ آرٹیکل 6 کے تحت سنگین غداری کے زمرے میں آتاہے، فیصلہ
آرٹیکل 6 آئین کاوہ محافظ ہے جو ریاست، شہریوں میں عمرانی معاہدہ چیلنج کرنیوالے کا مقابلہ کرتا ہے، فیصلہ
ہماری رائے ہے سنگین غداری کیس میں ملزم کو فیئر ٹرائل کا موقع اس کے حق سے زیادہ دیا گیا، فیصلہ
قانون نافذ کرنے والے ادارے پرویز مشرف کو گرفتار کرکے لائیں تاکہ سزا پر عملدر آمد کرایا جا سکے، فیصلہ
پیراگراف نمبر 68 میں لکھا گیا ہے کہ ملزم پرویز مشرف کو ملک سے باہر بھگانے والے افراد کو بھی قانون کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کیا جائے۔

خصوصی عدالت کے 3 رکنی بینچ نے 17 دسمبر کو پرویز مشرف کو سنگین غداری کیس میں سزائے موت سنائی تھی اور کیس کا فیصلہ دو ایک کی اکثریت سے سنایا تھا۔

سابق حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) نے پرویز مشرف کے خلاف آئین شکنی کا مقدمہ نومبر 2013 میں درج کیا تھا۔ یہ مقدمہ پرویز مشرف پر آرمی چیف کی حیثیت سے تین نومبر 2007ء کو ملک کا آئین معطل کر کے ایمرجنسی لگانے کے اقدام پر درج کیا گیا تھا۔

خصوصی عدالت 20 نومبر 2013 کو قائم کی گئی جس نے 31 مارچ 2014 کو پرویز مشرف پر فرد جرم عائد کی اور 19 جون، 2016 کو انہیں کو مفرور قرار دیا۔

2013 کے بعد خصوصی عدالت کی 6 دفعہ تشکیل نوکی گئی اور ججز بدلتے رہے۔ یہ مقدمہ جسٹس فیصل عرب، جسٹس مظہرعالم میاں خیل اور جسٹس طاہرہ صفدر سمیت 7 ججز نے سنا۔

سنگین غداری کیس کی 6 سال میں 125 سے زائد سماعتیں ہوئیں اور پرویز مشرف پر 5 فریم چارج کیے گئے۔ سابق صدر پرویز مشرف پر آئین توڑنے، ججز کو نظربند کرنے، آئین میں غیر قانونی ترمیم کرنے، بطور آرمی چیف آئین معطل کرنے اور غیر آئینی پی سی او جاری کرنے کا چارج فریم کیا گیا۔

عدالت نے متعدد مرتبہ پرویز مشرف کو وقت دیا لیکن وہ عدالت میں پیش نہیں ہوئے ۔ْ

مارچ 2014 میں خصوصی عدالت کی جانب سے سابق صدر پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جب کہ ستمبر میں پراسیکیوشن کی جانب سے ثبوت فراہم کیے گئے تھے تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم امتناع کے بعد خصوصی عدالت پرویز مشرف کے خلاف مزید سماعت نہیں کرسکی۔

بعدازاں 2016 میں عدالت کے حکم پر ایگزٹ کنٹرول لسٹ ( ای سی ایل ) سے نام نکالے جانے کے بعد وہ ملک سے باہر چلے گئے تھے۔

سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کی خصوصی عدالت میں سماعت ہوئی جس کے دوران استغاثہ کی شریک ملزمان کے نام شامل کرنے کی درخواست عدالت نے مسترد کردی۔

استغاثہ نے سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، سابق وزیر قانون زاہد حامدکو شریک ملزم بنانے کی درخواست دائر کی تھی۔