شاعر اسلام حضرت علامہ شیخ محمد اقبال کی تو ساری زندگی ہی مسلمانوں کے لیے بعث رحمت تھی۔ انہوں نے اپنی شاعری کے ذریعے درماندہ اور سوئی ہوئی مسلم قوم کو پھر سے زندہ کیا تھا۔ علامہ اقبال کے آخری دو سال تحریک پاکستان اور خاص کر مسلمانانِ پنجاب کے لیے بہت اہم تھے۔ اس لیے تحریک پاکستان کے خادموں میں ایک ،جناب عاشق حسین بٹالوی نے علامہ اقبال کی زندگی کے آخری دو سالوں میں رونماء ہونے والے واقعات کو اپنی کتاب ”اقبال کے آخری دو سال” میں قلم بند کر کے ملت اسلامیہ برعظیم پر احسان کیا ہے۔ ان دو سال میں عاشق حسین بٹالوی، علامہ اقبال کے ساتھ شانہ بشانہ پاکستان کے لیے کام کر رہے تھے۔ اس طرح وہ اس واقعات کے چشم دید گواہ ہیں۔ اپنی کتاب میں اس وقت کے واقعات کو اُنہوں نے دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ پہلا حصہ اور دوسرا حصہ۔پہلے حصہ میںپنجاب کے گورنرجرنل سرمائیکل ادڈوائر کے مسلمانوںکو شہری اور دیہاتی ٹکڑوں میں بانٹ کر اپنے آبائو اجداد کی پالیسی کہ پہلے تقسیم کرو پھرلڑائو اور حکومت کروکے تحت عزاہم کو حاصل کرنے کی سعی کی تھی۔
مصنف نے ان حالات مکمل طور پر قلم بند کیے ۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس پہلے واقع ہونے والے حالات کو سمجھ کر ہی بعد کے حالات سمجھ آسکتے ہیں۔ تحریک پاکستان کا مطالعہ کرنے والا طالب علم اس سے اندازہ کر سکتا ہے کہ علامہ اقبال نے شدید بیماری کے باوجود اپنے رفیق،حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کو پنجاب کی سیاست کی پل پل کی خبروں سے آگاہ رکھا۔کتاب کے ددسرے حصہ میں ١٩٣٧ء کے انتخابات اور بعد کے حالات قلم بند کیے گئے ہیں۔ آج کے اس کالم میں ہم کتاب کے پہلے حصہ پر تبصرہ کریں گے دوسرے حصہ پر پھر کبھی سہی۔لکھتے ہیں١٩١٩ء کا جلیاں والا باغ کا واقع جس میں بے دردی قتل عام کیا گیا تھا اور ١٨٥٧ء کی جنگ آزادی کہ جس میں ظلم کی داستان رقم کی گئی۔( جو انگریز کے سفید چہرے پر کالے داغوں کے نشان رہتی دنیا تک صاف نہیں ہو سکیں گے ۔ علما کو توپوں کے سامنے باندھ کر اُڑا دیا گیا۔ سڑ کوں پر میلوں درختوں کے ڈالوں پر لٹکتے ہوئے لاشے جیسے کہ ہزاروں لوگ شاید ورزش کر رہوں۔ کالا پانی کی قید بند کی سزائیں جیسے وہ انسان نہیں کہ سیکڑوں جانور ہیں کہ انہیں وہ گھاس چرنے کے لیے جنگل میںقید کر دیا گیا۔ زمینوں کی ضبطی کہ جیسے ان کے باپ کا مال تھا کہ حق سرکار میں لوٹ لیا۔)جیلاں والاباغ اور ١٨٥٧ء کے دو واقعات برعظیم کی آزادی کے سنگ میل بن گئے۔
بظاہرتو ١٨٥٧ء کے بعد انگریز نے برعظیم کے مسلمانوں پر مظالم اور سفاکیت کے پہاڑ توڑ کر برعظیم پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا تھا اور ١٩١٩ء کے مظالم نے برعظیم میںانگریز نے سمجھا کہ آزادی کی لہر دب جائے گی،مگر ایسا نہیں ہوا ۔آزادی کی لہر نے اس واقعات سے اُڑان پکڑی۔ لکھتے ہیں کہ ظالم اور کٹر متعصب ادڈوائر ١٩١٣ء میں پنجاب کالفٹنٹ گورنر بنا۔ ١٩١٣ء سے ١٩١٩ء تک پنجاب پر حکمرانی کی۔شہری اور دیہاتی مسلمانوں پر الزام لگایا کہ مسلمانوںکا تعلیم یافتہ شہری طبقہ ترکی، افغانستان اورجرمنی سے مدد لے کر تاج برطانیہ کا اقتدار برعظیم سے ختم کرنا چاہتے ہیں۔سکھ اور ہندوئو ں کے تعلیم یافتہ شہری لوگوں پر الزام کہ وہ انگزیز حکومت کے خلاف دشمنوں سے ساز باز کر کے ہندوستان میںشورش برپاہ کرتے ہیں۔
دہیاتی عوام کو تو پہلے سے ہی ڈرا کر رکھا ہوا تھا۔ لکھتے ہیں کہ ظالم اوڈوائر نے جنگ عظیم میں جھوکنے کے لیے پنجاب کے دہیاتوں سے لاکھوںہندوستانیوں کی ذبردستی بھرتی کیا گیا۔ناجائز طریقے سے جنگی فنڈجمع کیا گیا۔ آزادی کے متوالوں کو اپنی حق سے روکنے کے لیے اوڈوائر نے١٥ اپریل ١٩١٩ کو مارشل لالگا دیا۔اس زمانے میں قائد اعظم ہندو مسلم اتحاد چاہتے تھے۔ ١٩١٣ء سے قائداعظم کی اتحاد کی پالیسی کی وجہ سے پنجاب میں مسلم لیگ اور کانگریس کو مشترکا اجلاس منعقد کیے۔ اس سے آزادی کی تحریک تیز ترہوئی جوہند کی آزادی پر منتج ہوئی۔١٩١٦ء میں میثاق لکھنو پیکٹ یا میثاقِ لکھنو ہوا۔جس میںمل جل کے آزادی کا قصدہوا۔٦ اپریل ١٩١٩ء کو رولٹ ایکٹ کے خلاف پشاور سے راس کماری تک تاریخی مکمل ہڑتال ہوئی۔ ہندو ،مسلمان نے ترک موالات اور خلافت موومنٹ میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا۔
لکھتے ہیں کہ دیہاتی مسلمانوں کی زمینیں سود درسود کے چکر میں ہنددئوںسوکاروں کے قبضے میں جارہی تھیں۔ اس لیے میاںفضل حسین اورلال چندنے نیشنل یونینسٹ پارٹی بنائی۔ میاںفصل حسین کو مسلمانوں کی فلاح بہبود کی حمایت کی بنا پر آل انڈیا مسلم ایجوکیشن کانفرنس نے صدارت کا اعزاز دیا تھا ۔١٠ مارچ ١٩٢٧ء کو دہلی میںقائد اعظم کی صدارت میں تیس سرکردہ مسلمانِ ہند مسلمان اتحاد کے کی کوشش کے لیے ویسٹرن ہوٹل میںجمع ہوئے۔ اس اجلاس میں مسلمانوں کے حقوق کے لیے متفقہ طور پر کچھ ریمنڈ منظور ی گئیں۔ کہا گیا کہ یہ ڈیمانڈ منظور کر لی جائیں تو مسلمان مخلوط انتخابات کے لیے تیار ہیں۔ قائد اعظم کے نذدیک اس سے بنگال اور پنجاب میں مسلمانوں کے لیے فواہد حاصل کرنا تھا۔ اس کے بعد آل انڈیا کانگریس کی کمیٹی کا اجلاس منعقدہ١٥ مئی ١٩٢٧ء زیر صدارت سری نواس آئنگر بمبئی میں ہوا۔ اس اجلاس میں قائد اعظم کی طرف سے پیش کی گئی سای کی ساری یہ ڈیمانڈ منظور کر لی گئیں۔اس پر قائد اعظم کو ہندو مسلم اتحاد کا سفیر بھی کہا گیا۔
قائد اعظم کے مخالف اور ذاتی فواہد کے حامل سر محمد شفیع اور میاں فصل حسین اس اتحادی سوچ کے مخالت کی۔ قائد اعظم نے کافی کوشش کی مگرمخالف گروپوں نے قائد اعظم کی ایک نہیں سنی۔ جہاں تک کہ محمد علی جوہر بھی قائد کے مخالف ہوگئے۔ہنددئوں میںموتی لال نہرو بھی قائد اعظم کے مخالف تھے۔ سر محمد شفیع اور میاں محمد فصل حسین نے قائد اعظم سے اختلاف کرنے والے مسلمانوں کے دھڑوں کو جمع کر کے مسلم لیگ کے مقابلہ میں مسلم کانفرنس بنا ڈالی۔ اس کا صدر سر آغا خان کو بنا دیا۔مسلم لیڈر شپ کے اس انتشار کو دیکھ کر قائد اعظم کے لیے گوشہ نشینی اختیار کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہ تھا۔ علامہ اقبال ان دنوں سخت بیمار تھے۔ عملی سیاست میں حصہ لینے کے بل لکل قابل نہیں تھے۔ مگر بستر پرلیٹے لیٹے ملک ملت کا درد، ان کو فعال رکھے ہوئے تھا۔ مسلمانوں کے سر دھڑ کے بازی لگانے والے لیڈر قائد اعظم سے رابطہ رکھے ہوئے تھے۔
ان ہی آخری دو سالوں کا ایک زمنی واقع بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ مفکرپاکستان،حکیم الامت علامہ اقبال کی مسلمانوں سے ہمدردی کا اندازہ لگائیں کہ بیماری کے باوجود وہ ایک اہم کام کے لیے سید موددی سے خط و کتابت کر رہے تھے۔ وہ اس طرح کی مسلمانوں کے ایک ہمدرد جنا ب چوہدری نیاز علی خان جو ریٹائرڈ بیروکریٹ تھے۔ ان کی زمین ضلع گرداس پور پٹھان کوٹ ،جمال پور میں تھی۔چوہدری نیاز علی نے جہاں کچھ عمارتیں تعمیر کرائیں تھیں۔ وہ اس جگہ کواسلام کی خدمت کے لیے وقف کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔انہوں نے اس سلسلے میں علامہ اقبال سے مشورے کیا۔ علامہ اقبال کے ذہن میں یہ بات تھی کہ اے کاش کہ کوئی ایسا شخص عالم اسلام میں سے مل جائے جو فقہ اسلام کی تدوین جدید کے لیے تیار ہوجائے۔یہاں پٹھان کوٹ رہ کر، یک سو ہو کر یہ کام کرے۔ علامہ اقبال نے بر عظیم میں تلاش کی مگر کوئی بھی مل نہ سکا۔ علامہ ا قبال نے مصرکے جامع الاازہر سے رابطہ قائم کیا۔ مگر وہاں سے بھی کوئی عالم میسر نہ ہو سکا ۔ اسی زمانے، بلکہ پہلے سے مولانا موددی سے آشنا تھے۔
سید موددی نے ١٩٢٦ ء میں سولہ سال کی عمر میں کتاب الجہاد فی اسلام لکھی تھی۔ جس کی علامہ اقبال نے تحریرلکھ کر تعریف کی تھی۔علامہ اقبال سید موددی کے ماہانہ ترجمان القرآن کا مطالعہ بھی کیا کرتے تھے۔ وہ اس چیز سے واقف تھے کہ سید موددی اپنے رسالہ ترجمان القرآن میں ١٩٣٢ء سے لوگوں کو حکومت الہٰیا کی طرف بلا رہے تھے۔مولانا سید موددی تر جمان القرآن کے ذریعے ایسے افرادکی تلاش میںلگے ہوئے تھے جو ان کی سوچ کے مطابق حکومت الہٰیا کے قیام کے لیے تیار ہو جائیں۔ سید موددی علامہ اقبال کے کہنے پرچوہدری نیاز علی خان سے خط و کتابت کے بعد صرف اللہ کے لیے حیدر آباد دکن سے پنجاب پٹھان کوٹ ١٩٣٦ ء میں ہجرت کر کے آئے اور ١٩٤٧ء تک پٹھان کوٹ بیٹھ کر فقہ اسلام کی تدوین جدید اورحکومت الہٰیا کے لیے کام کرتے رہے۔سید موددی نے علامہ اقبال سے دودفعہ ملے تھے۔ علامہ اقبال نے سید موددی سے وعدہ کیا تھا کہ سال کے چھ ماہ، وہ پٹھان کوٹ میں گزارہ کریں گے۔ مگر اللہ نے علامہ اقبال کو جلد ہی اپنے پاس پاس بلا لیا۔(باقی آیندہ )