پیج اپنا اپنا (مکافات عمل)

Pervez Musharraf

Pervez Musharraf

تحریر : شاہ بانو میر

شھاب ثاقب چند حسین و جمیل بیرون ملک جلسوں کی خاطر اس ملک میں عدلیہ کو یوں جانبدار نہ کرتے سسلین مافیا. گاڈ فادر دنیا کے ایوان منصفی جس پر تلملا اٹھے تھے کاش اس دن پاکستان بھی اس کو ریجیکٹ کرتا کل یہ الفاظ حذف کیے جاتے
تو آج نوبت غدار لکھنے تک نہ آتی ہمیشہ یہی لکھا کہ ماضی کے سیاستدانوں نے وقت سے ضمیر سے بہت کچھ سیکھا ہے
اللہ پاک بھی بڑے سے بڑے گناہ گار کو معاف کر دیتے ہیں جب وہ سچی توبہ کرتا ہے
اے پاکستان والو
کھول لو قرآن پڑھ لو اپنے رب کی خوشخبریاں
درگزر سے کام لو
ان سب نے غمطیاں کی ہیں
مگر
ملک سے غدار. کوئی نہیں
پاکستان کی خاطر
جس جس نے دل سے جان سے کام کیا
وہ معتوب ہوا
تاریخ کی سب سے بڑی زندہ عبرت ناک مثال بھٹو کو بنایا گیا
نہ زمین کانپی نہ آسمان
بے یارو مددگار لاوارثوں کی طرح مدفون کیا
سب سہہ گئے
نواز شریف کے ہر دور میں اس کو یوں رسوا کیا گیا کہ
وہ آج زندہ لاش ہے
ڈاکٹر قدیر فخر وطن عمر بھر کی آسائشات چھوڑ کر اس بے رحم معاشرے میں آ گئے
ملک کو عروج دینے
دنیا بھر کی خفیہ ایجنسیز کا ہدف بن گئے
زندگی داوّ پر لگا کر اس ملک کو ایٹم بم جیسی طاقت دینے کے لیے
حساس ٹنوں کے حساب سے حساس پرزہ جات جوکہیں بھی بھیجناتنہا انسان کےبس کی بات نہیں
لیکن ادارہ بچانے کے لیے اس عظیم دماغ سےطاقتور نے بدلہ لے لیا
ملک کا محسن جسے تاج پہنایا جانا تھا
راندہ درگاہ ہو گیا
نام کے حکمران
ہر دور میں دوزانو ہو کر اپنے ملک کو اس کے قیمتی اذہان کو یونہی تذلیل سے عوامی معافی منگواتے ہیں
ہر دور میں بیرونی آقاوّں کی آشیر باد کیلیے ہر سربراہ ایسا ہی کرتا ہے یہی غلامی کی وہ نادیدہ زنجیریں ہیں جنہیں آج بھی کوئی نہیں کاٹ سکا
ہر حکمران پیٹھ پر کسی طاقت کی آشیر باد لے کر مسند اقتدار پر براجمان ہوتا ہے
اداروں کی آزادی جکومتی دباوّ سے محدود کی جاتی ہے
تاکہ اگلی حکومت اپنی سوچ سے نیا نظام لائے اور چلائے
لیکن
پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا دور دیکھا گیا
جس میں عوام سے اداروں سے دنیا سے اتنے جھوٹ بولے گئے جھوٹ کی ساخت ہی تبدیل ہو گئی
آج جھوٹ یوٹرن جیسادانشمند لفظ بن گیا
ایک دور تھا
حکومت ڈی ریل کی اختراع سنی
اب ایک نئی رٹ سنائی گئی
سب ادارے حکومت کے ساتھ
ایک پیج ہر ہیں
حکومت ایک وسیع نظام کا نام ہے
جس میں داخلی کے ساتھ خارجی امور میں سیکڑوں ممالک سے مختلف انداز سے ہی ملا جاتا ہے
یہ سیکڑوں ممالک سیکڑوں فائلوں میں یزاروں صفحات میں لکھے جاتے ہیں

پھر
حکومتی شعبے
ہر ایک کے مسائل پوزیشنز ضروریات وسائل ان کی ترسیل یہ بھی الگ الگ باقاعدہ دفاتر کے ساتھ عملہ مانگتے ہیں
تب یہ مجہول سا ڈھیلا ڈھالا ملکی نظام رینگتا دکھائی دیتا ہے
جس ملک کابہتر سال میں کوئی نظام ہی نہ ن سکا ہو
اس ملک کے ادارےایک ہی پیج پرسیاسی نعرہ تو ہو سکتا ہے
نظام ہرگزملاپلی سے نہیں چلا سکتا
اچھا بھلا پرسکون ملک چل رہاتھا
کچھ بے صبرے اپنے افلاطون لا کر انقلابی تبدیلیاں لاناچاہتےتھے
یوں تبدیلی کاعمل وسیع پیمانےپرشروع ہوا
مفروضوں پر اداروں کو اعتماد میں لے کر ملک کا اربوں روپیہ اکھاڑ پچھاڑپر لگایا گیا
محکمہ انصاف پرجاویدھاشمی کےاٹھائے ہوئےتمام سوالات مرحلہ وار جواب دیتےگئے
بد نصیبی یہ ہو کہ سامنے والے.
رہبر جو اللہ نیت تو اچھی دی ہو
لیکن
وہ گھریلو زندگی رشتوں کے وزن سے عاری تنہا
بے وزن زندگی کا عادی ہو طریقہ درست اختیار نہ کرسکا
تو اس کے لیے کسی کی عزت نفس کسی عزت بے عزتی کوئی معنی نہیں رکھتی
یوں

ایک عدالت کے یکطرفہ جانبدار تذلیلی فیصلوں نے دنیا پر
بے انصافی کےشھاب ثاقب
یوں برسائے کہ سامنے موجود ہر سیاسی مخالف کو پابند سلاسل کر دیا
طاقتور ادارے جن کا کام کل تک خاموشی اور دفاع وطن تھا
وہ اس انداز سے میڈیاپر حکومتی حمایت میں سامنے آئے کہ
یہ ادارہ خود پارٹی بننے لگا
عجیب منظر دیکھا گیا
مارشل لاء نہیں تھا
صحافت خوفزدہ اور محدود
قلم ساکن اور دانشوروں کی زبانیں خاموش کروا دی گئیں کہ
کسی طرح یہ مجہول نا اہل لوگ کچھ تو کام کر سکیں
پس پردہ تمام کے تمام امور طے پاتے چلے گئے
اپوزیشن میڈیا پردیکھنےسے بھی نہیں ملتی تھی
حکومتی تھوبڑے دیکھنے پر مجبور کردیاگیا
جھوٹ کی نیی توجیہہ یو ٹرن سامنے آئی
طاقتورادارےکی بے حساب پشت پناہی
اکانومی صفر
کشمیر ہاتھ سےگیا
اپوزیشن کے لیے
زبانوں کی لمبائی ایسی کہ کاٹنے سے بھی کم ہونے کا نام نہیں لے رہی
یہ داستان گزشتہ سالوں اور مہینوں کی ہے
مگر
آفرین ہے سابقہ حکومت کو قیامت خیز دور میں بھی عوام کے لیے ترقیاتی کاموں کاسلسلہ تھمنے نہیں دیا
املک کے شہروں کے ذرائع آمد و رفت پل سڑکیں انڈر پاسسز. میٹرو. اورنج ٹرینوں نے جیسے مایوس نڈہال لوگوں کو کم پیسوں میں دور دراز کام کے وسیع مواقع فراہم کیے
ذہن ہرسکون اور ترقی کا پہیہ تیز چلنے لگا
پھر کچھ ہی مہینوں کے اندر جو جو
جاوید ھاشمی صاحب نے اندر کی کہانی سنائی تھی
اس اسکرپٹ کا کھیل شروع ہوا
ویسے ہی فیصلے من پسند جج سے گھٹیا الفاظ کے ساتھ تحریر کروائے گئے دنیا کے ایوان عدل حیران رہ گئے
ان کے ہاںاشاروں پرفیصلہ دینے والا ایسا جج بائسٹ کہلاتا ہے
بابا خود پر اعتماد کرو کا نعرہ لگا جر ڈیم فنڈنگ میں مہمان خصوصی کے طور ہر پورا انگلینڈ گھوم آئے
آج نہ وہ ڈیم ہے نہ اسکی کوئی شنوائی
پاک فوج میرے ملک کا وقار
ہماری شان
ہماری آن
پاکستان کے نام کا تحفظ بقاء کی ضامن
بد نصیبی سے ایسا دور ہم دیکھ چکے جس میں حکمران جماعت دھڑلے سے ایک ہی پیج پر ہیں
کا راگ الاپتی رہی
اس نعرہ کی تکرارکافائدہ حکومت کو تو ملتا ہے
لیکن
فوج کو سیاسی جماعتوں سے عوام تک جانبدار بنا کر متنازعہ بنا دیا
بار بار لکھا اس آواز کو روکا جائے
آئین ایک پیج ہر مشتمل نہیں
ہر ادارے کیلیے الگ صفحات ہیں
کیوں؟
تاکہ
ہر ادارہ اپنے اہداف پر چل کر ملک کیلیے نمایاں کارکردگی دکھائے
اور
جہاں تال میل ادارے ملا کر گٹھ جوڑ سے ایک پیج ہر اکٹھے ہوں
تو ایسی صورت میں پنجابی کی
گنجل
بن جائیں گے
جس عوامی ٹیکس کی تنخواہوں کا رونا سابقہ حکومت کیلیے رویا جاتا تھا
اصل رونا تو اب چاہیے
مہنگائی نے کمر توڑ دی کھانے کے لاکے پڑ گئے
گیس بجلی کے بل کسی عفریت کی آمد لگتے ہیں
ایسے میں نااہل لوگوں کا ٹولہ کام منصوبوں کی بجائے قومی اسمبلی میں صرف حزب اختلاف سے بحث کرنے جاتا ہے؟
اس مجہول نظام کا ذمہ دار کون ہے
وہ ہے
جو کہتا تھا رہنما ٹھیک ہو تو عوام تک سہولیات پہنچتی ہیں
سہولیات اگر بھوک افلاس مایوسی بیچارگی تھی
بزرگی میں بھیک مانگنا تھی
تو معافی ہمیں مانگنی چاہیے
کہ
ہم ان کی شاندار اردو سمجھ نہیں سکے
خود دعائیں کر کر لا مسلط کیا
آج زوروشور سے ایک پیج سے ادارے واپس اپنے اپنے پیج پر جا چکے ہیں
میرے تحفظات ہیں
مشرف کے فیصلے کےلفظ غداری پر
لیکن
مکافات عمل شائد یہی ہے
یہی مشرف تھا
جس نے ڈاکٹر عبدل القدیر صاجب محسن وطن پر سارا ملبہ ڈال کر عوام کے سامنے نہ صرف معافی دلوائی
بلکہ
انہیں زندہ درگور کر دیا
تاکہ
بیرونی آقاوّں کی آشیر باد میں کمی نہ آئے
آج تاریخ رقم ہوئی فیصلہ جب آیا سوائے ایک پارٹی کے سب خوشی کا اظہار کر رہے ہیں
جس ادارے کے جوانوں نے اس دھرتی کو اپنے لہو کو سرخی دی
تب جا کر یہ ہری بھری یوئی
ملک کا سب سے طاقتور ادارہ قربانیوں
لا محدود داستانیں
اور
اس کے سابقہ سربراہ کو سزائے موت اور عوام کی خاموشی
افواج پاکستان کا بروقت ایکشن صورتحال ہر غور سات گھنٹے کی میٹنگ اور ہھر فیصلے ہر شدید بیچینی اور غصے کا اظہار
یہ فیصلہ علامتی ہے
اللہ کرے کہ
اس سے ادارے سمجھ لیں
کہ
اللہ کی قائم حدود کو جتنا مرضی سجا لو سنوار لو
وہ مستقل نہیں عارضی اور باعث شر ہوں گی
عمران خان کا کمال ہے
ملک کے بچوں کی ایسی مت ماری کہ
ہر ماں بہن ایسی گھر سے باہر نکلی نیا پاکستان بنانے کہ نیا تو نہ بنا
میرے ملک کی معاشرت کا بیڑہ غرق اس پارٹی نے سیاسی شعورکے نام پر کر دیا
ادارے جب طاقتور کے دباوّ رعب ڈر سے آزاد یوتے ہیں
منصفین اللہ کو جوابدہ ہوں
پروگرامز کے شوقین نہ ہوں تو پھر فیصلے مرضی کے حاصل نہیں کیے جا سکتے
خواہ
حکومت وقت ہی رکوانے کی درخواست کرے
یہ نیا مشکل اور دیر سے ہضم ہونے والا فیصلہ ہے
لیکن
میں سوچتی ہوں
اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے
ڈاکٹر قدیر نے عمر کی لیبارٹری میں گزار دی
پر آسائش نوکری چھوڑی اس ملک کو ناقابل تسخیر بنانے کی تمنا میں
اور
ہم نے اس عظیم انسان کو مجرم بنا کر اسکی باقی زندگی تنہا اور احساس جرم میں بسر کرنے کیلیے اکیلا چھوڑ دیا
آج قدرت نے ایک طاقتور ادارے کے ہوتے ہوئے
اپنی قدرت کی طاقت ثابت کی
سیکھیں
ملک کو انارکی لا قانونیت اور
بد تہذیبی کی طرف دھکیلنے والے
یہی روایت قائم ہے
اس ملک کی قائد سے مشرف تک ہر ایک کے ساتھ یہی سلوک ہوا ہے
کل آنا طے ہے
ان سب کا کیا ہوگا؟
فکر صرف یہ ہے
عدالت کے اس غیر متوقع فیصلے پر صرف یہی کہنا ہے
مشرف صاحب
کل سسلین مافیا گاڈ فادر پر احتجاج کیا جاتا تو آج شائد لحاظ ہو جاتا
شائد
اسے ہی مکافات عمل کہتے ہیں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر