ملتان (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان کی ایک عدالت نے مبینہ توہین مذہب کے الزام میں گزشتہ چھ برسوں سے زیر حراست لیکچرار جنید حفیظ کو سزائے موت کا حکم سنا دیا ہے۔ ان پر الزام تھا کہ وہ مبینہ طور پر اسلام مخالف نظریات پھیلانے کے مرتکب ہوئے تھے۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کے شہر ملتان سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق جنید حفیظ کو ان کے خلاف مقدمے میں سزائے موت کا فیصلہ ایک عدالت نے آج ہفتہ اکیس دسمبر کو سنایا۔ گزشتہ تقریباﹰ چھ برسوں سے جیل میں بند جنید حفیظ کو زیادہ تر اس لیے ایک علیحدہ کمرے میں رکھا گیا تھا کہ دیگر قیدیوں کے ساتھ رکھے جانے کی صورت میں ان پر جیل کے اندر ہی قاتلانہ حملہ بھی کیا جا سکتا تھا۔
اس کے علاوعہ سکیورٹی خدشات کی بناء پر ان کے خلاف آج ہفتے کے مقدمے کی سماعت بھی اسی جیل میں کی گئی، جہاں وہ قید ہیں۔ جنید حفیظ کے وکیل دفاع شہباز گورمانی کے مطابق ان کے مؤکل کو سزا سنانا ایک غلط فیصلہ ہے، جس کے خلاف وہ اپیل کریں گے۔
جنید حفیظ کا تعلق صوبہ پنجاب ہی کے ایک شہر راجن پور سے ہے اور وہ انگریزی زبان و ادب کے ایک لیکچرار ہیں۔ وہ 2010ء میں ایک امریکی یونیورسٹی میں اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس پاکستان گئے تھے۔ انہیں 2013ء میں اس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ ملتان کی ایک یونیورسٹی میں وزٹنگ لیکچرار کے طور پر پڑھاتے تھے۔
وکیل استغاثہ اطہر بخاری کے مطابق جنید حفیظ نے پاکستانی ماہرین تعلیم کے لیے ایک خصوصی پروگرام کے تحت تین سال امریکا میں گزارے تھے اور تفتیشی ماہرین کو اس لیکچرار کے لیپ ٹاپ سے دوران تفتیش مذہب مخالف مواد بھی ملا تھا۔ انہیں سزائے موت کا حکم سنائے جانے کے علاوہ پانچ لاکھ روپے جرمانہ بھی کیا گیا ہے۔
پاکستان میں توہین مذہب کے جس قانون کے تحت جنید حفیظ کو سزائے موت سنائی گئی ہے، وہ ایک انتہائی متنازعہ قانون ہے، جس کے تحت کسی بھی ملزم کو جس پر خدا، قرآن یا پیغمبر اسلام کی توہین کرنے کا الزام ہو، اس کا جرم ثابت ہو جانے پر سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
قانونی ماہرین کے مطابق پاکستان میں اس متنازعہ قانون کا کافی غلط استعمال بھی ہوتا ہے اور کئی واقعات میں لوگ ذاتی عداوت یا محض بدلہ لینے کے لیے بھی کسی بھی مسلم یا غیر مسلم شہری پر توہین مذہب کا الزام لگا دیتے ہیں۔
پاکستان میں کئی ملزمان کو اب تک اس متنازعہ قانون کے تحت سزائے موت سنائی جا چکی ہے لیکن آج تک کسی بھی ملزم یا ملزمہ کو سنائی گئی ایسی کسی سزا پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔
ایسے الزامات کا سامنا کرنے والے ملزمان اکثر برسوں تک جیلوں میں پڑے رہتے ہیں اور سماجی سطح پر صورت حال یہ ہے کہ کسی بھی مرد یا خاتون شہری کے خلاف کسی بھی فرد کی طرف سے ایسے الزمات کا لگایا جانا ہی اکثر مشتعل شہریوں کی طرف سے فوری پرتشدد احتجاج یا بلووں کی وجہ بن جاتا ہے۔