وہ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ
انسان دنیا میں کبھی بھی تنہا وقت نہیں گزار سکتا‘وہ کئی رشتوں ناتوں کے ساتھ جڑا رہتا ہے۔ان میں سے کچھ رشتے اور تعلق خون کے ہوتے ہیں جبکہ بہت سے رشتے اور تعلق روخانی‘ اخلاقی اور معاشرتی طور پر بنتے ہیں۔ ان میں ایک رشتہ استاد کا بھی ہے۔ اساتذہ کو معاشرے میں روحانی والدین کا درجہ حاصل ہے اسلام میں استاد کا رتبہ والدین کے رتبے کے برابر قرار دیا گیا ہے کیونکہ دنیا میں والدین کے بعد اگر کسی پر بچے کی تربیت کی ذمہ داری عائد ہوتی ہے تو وہ ہمارے استاد ہیں کیونکہ استاد ہی ہیں جو دنیا میں جینا اور رہنا سکھاتے ہیں اور کتابوں کاعلم سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔ اس لحاظ سے استاد واجب الاحترام شخصیت ہیں۔
استاد کی تعریف اگر ان لفظوں میں کی جائے تو غلط نہ ہوگا”ایک استاد لوہے کو تپا کر کندن‘پتھر کو تراش کر ہیرابناتا ہے استادمعمار بھی ہیں اور لوہار بھی“یہ واجب الاحترام اور لائق تنظیم ہے۔ ایک زمانہ تھا جب طالب علم حصول علم کی تلاش میں میلوں کا سفر پیدل طے کرتے تھے سالہاسال ملکوں میں گھومتے گھر بار سے دور رہ کر اپنے علم کی پیاس کو پوراکرتے تھے۔ استاد کی سزا?ں کو جھیلتے تب جاکر نگینہ بنتے مگر اُس دور میں طالب علم باادب اور باتہذیب ہوتے تھے۔ استاد کے قدموں بیٹھنا‘ان کی باتوں کو خاموشی سے سننا‘مذاق اڑانا تو دور کی بات نظر اٹھا کر بات کرنے سے بھی ڈرتے تھے۔
وقت نے اپنی اڑان بھری تو انسان بھی کئی ترقی کی منزلیں طے کرتا چلاگیااور اگر وقت بدلا تو تہزیباور آداب کے انداز بھی ساتھ ساتھ بدلتے گئے۔ چنانچہ یہ حقیقت ہے کہ آج کے دور میں طالب علم اولاًتو استاد کو تنخواہ دار ملازم ہی سمجھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج علم ناپیدہوتا جارہا ہے اتنے سکول‘کالج‘یونیورسٹیاں ہونے کے باوجود معاشرے میں اخلاقیات اور تہذیب کا کوئی نام نہیں۔ اسلام نے مسلمانوں پر علم فرض قراردیا ہے وہیں اسلام کی نظر میں استاد کو معزز رتبہ دیا ہے تاکہ اس کی عظمت سے علم کا وقار بڑھ سکے۔ علم کی قدر اُس وقت ممکن ہے جب معاشرے میں استاد کو عزت دی جائیگی اور ہمیشہ وہ طالب علم ہی کامیاب ہوتے ہیں جو استاد کا احترام کرتے ان کی عزت کرتے ہیں۔
ایسے ہی میرے استاد خواجہ محمداسلم لون صاحب تھے آپ نے40سال تک صحافتی خدمات سرانجام دیں۔ 2004کی بات ہے کہ میرے بہت ہی پیارے استاد ڈاکٹر عبدالخالق چودھری صاحب نے میری ملاقات خواجہ اسلم لون صاحب سے کروائی۔ضلع نارووال میں خواجہ محمد اسلم لون کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں شہر اور گردونواح کے لوگ آپ سحر کن گفتگو سے متاثر تھے جبکہ صحافتی حلقے آپ کی خدمات سے بخوبی آگاہ ہیں اور آپ سے وابستہ تھے۔
خواجہ محمد اسلم لون 13 اکتوبر 1932 کو کشمیری گھرانے قلعہ سو بھا سنگھ (احمد آباد)نارووال میں پیدا ہوئے اور تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ بطور طالب علم تحریک پاکستان میں بھی شامل رہے اس کے بعد 1950 میں آپ ایر فورس کے شعبہ ریڈار سگنل میں بھرتی ہو گئے 1980 میں ریٹائر ہونے کے بعد آپ نے اپنی صحافتی سرگرمیوں کا آغاز کیا پہلے پہل آپ مختلف اخبارات اور رسائل میں اپنی تحریریں لکھتے رہے کچھ عرصہ آپ نے روزنامہ آفتاب لاہور کے ساتھ گذرا پھر آپ روزنامہ نوائے وقت لاہور سے وابستہ ہوگئے آپ کو عوامی مسائل حل کرنے میں گہری دلچسپی تھی جس کے لیے کبھی آپ ایڈیٹر کی ڈاک کبھی ڈائری کی صورت میں تحریر کرتے رہے آپ کی کاوشوں سے قلعہ احمد آباد میں گرلز کالج ہسپتال میں عملے اور ضروری آلات کی فراہمی اور نکاسی آب نالہ ڈیک کے سیلابی پانی سے قلعہ احمد آباد کو بچانے کے لیے پل علامہ اقبال ایکسپریس کا قلعہ احمد آباد ریلوے اسٹیشن پرسٹاپ جیسے مسائل کو حل کرنے میں کامیابی حاصل کی جبکہ صحافیوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحد ہوکر کام کرنے کے لیے 20 سال قبل سینئر صحافی دوستوں کے ساتھ مل کر قلعہ احمد آباد پریس کلب کی بنیاد رکھی جبکہ 2009 میں قلعہ احمد آباد پریس کلب کو باقاعدہ حکومت پنجاب سے رجسٹرڈ کروایا گیا جس کے اس وقت آپ چیئرمین آپ انتہائی شریف اور نفیس انسان تھے۔
عشق رسول اور خوف خدا ہروقت آپ طاری رہتا آپ نے کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی اور نہ ہی کسی سے ناراضگی کا اظہار کیا اپنے قلم سے کسی کو دکھ نہیں دیا ہمیشہ مثبت انداز میں مسائل کو اجاگر کیا تنقید برائے اصلاح پر عمل کیا آپ کی زندگی درویشوں جیسی تھی مل جائے تو کھا لیتے نہ ملے تو صبر کرتے کبھی کسی سے کوئی شکوہ نہیں کیا ہمیشہ دوستوں سے محبت اور خلوص سے ملتے اور خود جاکر دوسرے کی خیریت دریافت کرتے راقم الحروف نے اپنی صحافتی سرگرمیوں کا آغاز تیس سال قبل ان کی زیر نگرانی شروع کی انھوں نے قدم قدم پر راہنمائی فرمائی اور زندگی میں بہت کچھ سیکھنے کا موقع ملا آخر کار 12 دسمبر 2019 بروز جمعرات 1 بجے دن آپ 87 سال کی عمر میں انتقال کر گئے آپ کی عوامی فلاحی اور صحافتی خدمات کو تا دیر یاد رکھا جائے گا اللہ آپ کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔آمین۔امید کرتے ہیں کہ خواجہ محمد اسلم لون صاحب کے صحافتی مشن کو قلعہ احمد آباد پریس کلب کے صدر ڈاکٹرعبدالخالق چودھری،عارف اے نجمی،رانا شاہد،وقاص احمد،طالب حسین، غلام مصطفےٰ باجوہ،احسن منصب سمیت تمام ممبرز جاری رکھیں گے۔