بغداد (اصل میڈیا ڈیسک) عراق میں عوامی احتجاج کے نیتجے میں وزیراعظم عادل عبدالمہدی کے استعفے کے بعد صدر برہم صالح نے بھی استعفے کا عندیہ دیا ہے۔ عراقی حکومت کے ایک سینیر عہدیدار نے کہا ہے کہ عراقی عوام کے ناپسندیدہ امیدوار کو وزارت عظمیٰ کے عہدے پر فائز کرنے پر اصرار جاری رہا تو صدر برہم صالح بھی عہدہ چھوڑ دیں گے۔
‘العربیہ’ چینل کو ذرائع سے خبر ملی ہے کہ ‘البناء اتحاد’ کی قیادت نے قصی السھیل کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا ہے۔ ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر برہم صالح بھی عہدے سے سبکدوش ہونے پر غور کرر ہے ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کی طرف سے کسی ایسے شخص کو وزیراعظم نامزد کیا گیا جسے عوام قبول نہیں کرتے تو صدر صالح عہدہ چھوڑ دیں گے۔ صدر برہم صالح سیاسی جماعتوں سے بار بار کہہ چکے ہیں کہ وہ کسی ایسے شخص کو وزارت عظمیٰ کے لیے سامنے لائیں جس پر عراق میں عوامی سطح پر زیادہ سے زیادہ اتفاق رائے پایا جائے۔
صدر برہم صالح نے پارلیمان کو آج اتوار تک نئے وزیراعظم کے انتخاب کا وقت دیا تھا۔ عراق کے نگران وزیراعظم عادل عبدالمہدی گذشتہ ماہ ملک گیر احتجاجی مظاہروں کے بعد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔ صدر برہم صالح اس سے پہلے پارلیمان کو ان کی جگہ نئے وزیراعظم کے انتخاب کے لیے دو مرتبہ ڈیڈ لائن دے چکے ہیں۔
عراقی حکام کا کہنا ہے کہ پڑوسی ملک ایران سابق وزیر قصئی السہیل کو وزیراعظم بنانا چاہتا ہے۔ وہ عادل عبدالمہدی کی مستعفی کابینہ میں وزیر تعلیم تھے لیکن مظاہرین نے دوٹوک انداز میں انھیں مسترد کردیا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ وہ 2003ء میں سابق صدر صدام حسین کی معزولی کے بعد برسراقتدار رہنے والے سیاست دانوں میں سے کسی کو بھی وزیراعظم کے طور پر قبول نہیں کریں گے۔
عراق کے دارالحکومت بغداد اور جنوبی شہروں میں یکم اکتوبر سے حکومت مخالف پُرتشدد احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔ سکیورٹی فورسز کی کارروائیوں اور جھڑپوں میں 460افراد ہلاک اور قریباً 25 ہزار زخمی ہوچکے ہیں۔عراقی سکیورٹی فورسز کے اہلکاراحتجاجی ریلیوں میں شریک مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے براہ راست گولیاں چلاتے ہیں جس سے اتنی زیادہ تعداد میں ہلاکتیں ہوئی ہیں۔ان کے علاوہ نامعلوم مسلح جتھوں نے بھی بغداد میں پُرامن مظاہرین پر حملے کیے ہیں جن کے نتیجے میں بیسیوں افراد ہلاک ہوئے ہیں لیکن کسی گروپ نے ان حملوں کی ذمے داری قبول نہیں کی ہے۔