نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے نئی دہلی کے رام لیلا میدان میں اپنی ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن جماعتوں پر ملک کو ’ہیجانی کیفیت‘ میں دھکیلنے کا الزام عائد کیا۔
بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نئے قوانین ملکی پارلیمان کے دونوں ایوانوں نے منظور کیے ہیں، اس لیے ان کا احترام کیا جانا چاہیے۔ ہندو قوم پرست جماعت کے رہنما نے الزام عائد کیا کہ ان قوانین کے بارے میں کانگریس اور دیگر اپوزیشن جماعتیں جھوٹ اور غلط بیانی سے کام لے رہی ہیں۔
نئے قوانین کے خلاف نئی دہلی سمیت ملک بھر میں مظاہرے کیے گئے۔ مظاہرین کا الزام ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک روا رکھے ہوئے ہے اور نئے قوانین میں بھی سب سے زیادہ مسلمان متاثر ہوں گے۔ انہی الزامات کے تناظر میں اپنے خطاب میں وزیر اعظم مودی کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت کے تمام ترقیاتی کام ملک کے سبھی شہریوں کے لیے ہیں۔ انہوں نے اپوزیشن جماعتوں کو چیلنج کیا کہ وہ حکومت کے ترقیاتی کاموں میں مذہب کی بنیاد پر امتیازی عنصر کی نشاندہی کر کے دکھائیں۔
مودی نے اپوزیشن جماعتوں سے سوال پوچھا کہ دنیا بھر میں ملک کو بدنام کیوں کیا جا رہا ہے۔ مظاہروں کے دوران املاک کو پہنچنے والے نقصان کا تذکرہ کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”آپ کو عوام کے منتخب کیے گئے مودی سے نفرت ہے تو اس کا پتلا جلائیں لیکن غریبوں کی املاک کو نقصان نہ پہنچائیں۔‘‘
بھارت میں مظاہرین کے خلاف طاقت کے استعمال پر پولیس کو بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نے پولیس پر حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کانگریس کے رہنما کا نام لیے بغیر ان پر الزام عائد کیا کہ وہ مظاہرین کو سکیورٹی فورسز پر حملہ کرنے کی ترغیب دے رہے ہیں۔
ایک گھنٹے سے زیادہ طویل خطاب میں بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا، ”شہریت ترمیمی قانون بھارت کے کسی بھی شہری، چاہے وہ ہندو ہو یا مسلمان، کے لیے نہیں ہے۔ بھارت کے ایک سو تیس کروڑ شہریوں کا اس سے کوئی واسطہ نہیں۔‘‘
این آر سی قانون کا تذکرہ کرتے انہوں نے کہا کہ اس قانون کی بنیاد کانگریس ہی نے رکھی تھی اور سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد ہی صرف آسام کے لیے اس پر کام شروع کیا گیا تھا۔ اس ضمن میں ان کہنا تھا، ”کانگریس اور اس کے ساتھی، شہروں میں رہنے والے کچھ پڑھے لکھے لوگ افوا پھیلا رہے ہیں کہ سارے مسلمانوں کو حراستی مرکز میں بھیج دیا جائے گا۔ حیران ہوں کہ اسی جھوٹ کو سچ مان کر پڑھے لکھے لوگ بھی پوچھ رہے ہیں کہ حراستی مراکز کہاں بنائے جا رہے ہیں۔‘‘
حراستی مراکز کے قیام کی تردید کرتے ہوئے وزیر اعظم مودی نے کہا، ”بھارت کی مٹی کے مسلمان، جن کے اجداد بھی بھارتی ہیں ان کا دونوں قوانین سے کوئی تعلق نہیں۔ بھارتی مسلمانوں کو نہ حراستی مراکز بھیجا جا رہا ہے اور نہ ہی بھارت میں کوئی حراستی مرکز ہے۔‘‘
شہریت کے نئے ملکی قوانین میں پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے تعلق رکھنے والے غیر مسلم افراد کے لیے بھارت کی شہریت کا حصول آسان بنایا گیا ہے، تاہم اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہیں کیا گیا۔
بی جے پی کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیر اعظم نے اس فیصلے کا دفاع کیا اور اقلیتوں اور خاص طور ہر ہندو دلتوں کے ساتھ ناروا سلوک پر پاکستان کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا، ”پاکستان کیسے اقلیتوں پر ظلم کرتا ہے اور پاکستان میں اقلیتوں کی کیا صورت حال ہے، یہ بہترین وقت تھا کہ یہ بات دنیا کے سامنے لائی جائے لیکن انہوں (اپوزیشن جماعتوں) نے بات ہی الٹ دی پاکستان کے کاموں کو دنیا کے سامنے لانے کا موقع بھی گنوا دیا۔‘
بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ نئے قوانین کے ذریعے پاکستان اور بنگلہ دیش جیسے ممالک سے ہجرت کر کے بھارت آنے والے ہندوؤں کو رعایت فراہم کی گئی ہے۔
اپنی تقریر کے آخر میں بھارتی وزیر اعظم نے دعویٰ کیا کہ دنیا بھر کے مسلم اکثریت ممالک انہیں پسند کرتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سن 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے انہوں نے مسلم دنیا کے تمام ممالک کے ساتھ بھارت کے تعلقات کو مزید مضبوط کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اقتدار میں آتے ہی انہوں نے پاکستان کے ساتھ بھی تعلقات کا نیا دور شروع کرنے کی کوشش کی تھی لیکن پاکستان کی طرف سے ‘صرف دھوکا‘ ملا۔
سعودی عرب، بحرین، یو اے ای، ایران، افغانستان، مالدیپ، فلسطین اور بنگلہ دیش کا نام لے کر انہوں نے دعویٰ کیا کہ مودی حکومت کے بہتر اقدامات کے سبب ان سب ممالک سے بھارت کے تعلقات مزید بہتر ہوئے ہیں۔ اس ضمن میں انہوں نے اپوزیشن جماعتوں الزام عائد کرتے ہوئے کہا، ”دنیا بھر کے مسلمان مودی کو پسند کرتے ہیں، یہ بات بھی انہیں پسند نہیں کیوں کہ انہیں خدشہ ہے کہ مسلم دنیا سے میرے بہترین تعلقات کے باعث انہیں اب بھارتی مسلمانوں کو مودی سے ڈرانے میں مشکل پیش آئے گی۔‘‘
بھارت میں شہریت سے متعلق متنازعہ قانون کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ ملک بھر میں جاری مظاہروں میں اب تک کم از کم تیئیس افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
ہندو قوم پرست جماعت بی جے پی کا کہنا ہے کہ ملکی شہریت کا نیا قانون سن 2015 کے بعد افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان سے ہجرت کر کے بھارت آنے والے پناہ گزینوں کے لیے بھارتی شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار کرے گا۔ تاہم مظاہرین اور ناقدین کا کہنا ہے کہ اس قانون میں مسلمانوں کو شامل نہ کر کے ہندو قوم پرست جماعت مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کر رہی ہے۔
نئی دہلی سمیت ملک بھر میں آج اتوار کے روز بھی مزید مظاہروں کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ بھارتی حکومت نے مظاہروں کو روکنے کے لیے عوامی اجتماعات پر پابندی اور پبلک ٹرانسپورٹ اور انٹرنیٹ کی بندش سمیت متعدد اقدامات کر رکھے ہیں، لیکن ان کے باوجود یہ سلسلہ تھمنے میں نہیں آ رہا۔
مظاہروں کا سلسلہ شروع ہونے کے بعد سے ملک بھر میں اب تک کم از کم 23 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ سب سے زیادہ ہلاکتیں آبادی کے لحاظ سے بھارت کی سب سے بڑی ریاست اتر پردیش میں ہوئیں، جہاں کم از کم نو مظاہرین ہلاک ہوئے۔ اترپردیش میں مسلمانوں کی آبادی کا تناسب بیس فیصد کے قریب ہے۔
اترپردیش پولیس کے ترجمان پروین کمار سنگھ کے مطابق پولیس کے ساتھ تصادم کے دوران ہلاک ہونے والے تمام نو مظاہرین نوجوان تھے۔ تاہم انہوں نے اس بات کی تردید کی کہ پولیس ان نوجوان کی ہلاکت کی ذمہ دار ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق پولیس ترجمان کا کہنا تھا، ”کچھ افراد گولیاں لگنے سے آنے والے زخموں کے باعث ہلاک ہوئے، لیکن یہ زخم پولیس کی گولیوں کے نہیں تھے۔ پولیس نے پرتشدد مظاہرین کو ڈرانے کے لیے صرف آنسو گیس استعمال کی تھی۔‘‘
بھارتی حکام کے مطابق دس دن سے جاری ملک گیر مظاہروں کے دوران کم از کم 1500 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں قریب چار ہزار افراد کو مختصر وقت کے لیے حراست میں لیے جانے کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔