تاریخ انسانی کے ہر دور میں اور آج بھی اربوں انسان زمین کے چپے چپے پر آباد ہیں اِس مادی دنیا میں آنے والا تقریبا ہر فرد طاقت شہرت اور اقتدار کے خواب دیکھتا آیا ہے اِس خواب کی تکمیل کے لیے مذہبی اخلاقی روایات کو قدوں تلے روند کر لاکھوں لوگوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر اپنے اِس خواب کی تعبیر کر نا چاہتا ہے اب اقتدار کی دیوی تو کروڑوں انسانو ں میںسے کسی ایک پر ہی مہربان ہو تی ہے اب جب مادیت پرستی کے طلسم ہو شربا میں گرفتار انسان دیکھتے ہیں کہ وہ اقتدار کے کو ٹھے پر براجمان نہیں ہو نگے تو پھر ایسے مادی لوگ صاحب اقتدار لوگوں کے تلوے چاٹتے ہیں یا اقتدار کی راہداریوں میں زمیں پرردینگتے حشرات الارض بننا پسند کر تے ہیں۔
ہر صاحب اقتدار کی مداح سرائی اور جھوٹی ہڈیاں چوسنا نعمت عظیم خیال کرتے ہیں صاحب اقتدار کے ساتھ تعلق کو ہی حاصل زندگی خیال کر تے ہیں اور اگر سالوں بعد کو ئی بڑا عہدے دار یا حاکم وقت اِن کے گھر پر آجائے تو پھر تو یہ مراثیوں کے ریکارڈ بھی توڑ دیتے ہیں پھر تصویریں بنا کر اپنے ڈرائینگ روموں میںلگا کر کئی عشروں تک آنے والوں کو مرعوب کر نے کی کو شش کر تے ہیں لیکن مادیت پرستی کے اِس طلسم ہو شربا سے دور ہر دور میںایک طبقہ ایسا بھی کر ہ ارضی کو رونق بخشتا رہا ہے جو نہ تو صاحب اقتدار کے سامنے دامن مراد لے کر گئے اور نہ ہی کبھی اقتدار کی راہداریوں کے جھو لے جھولنے کی کو شش کی بلکہ بو ڑھے آسمان اور اہل دنیا نے ہر دور میں ایسے بوریا نشینوں کو دیکھا جو آبادیوں سے دور خاک پر بیٹھ کر دکھی مخلوق کی دن رات خدمت کر تے رہے اور پھر اہل دنیا نے کئی بار وہ منظر بھی دیکھا جب سلاطین وقت ننگے پائوں اِن بو ریا نشینوں کے سامنے بھکاری بن کر اپنی ضرورتوں کی بھیک مانگتے نظر آئے۔
دلوں کے راجا یہ بوریا نشینوں کے سامنے بھکاری بن کر اپنی ضرورتوں کی بھیک مانگتے نظر آئے ‘ دلوں کے راجابوریا نشین اِن مفلس سلاطین کو بھی خالی ہاتھ نہ لو ٹاتے بلکہ اِن کی برسوں پرانی خو اہشوں کی تکمیل خدا کے حضور دعا کر کے پوری کر تے ایسابھی بے شمار دفعہ ہو اجب ایک عام انسان اِن بوریا نشینوں کے در پر آیا تو اِن کی نگاہ کیمیا نے ایک نظر میںاُس مفلس کو اقتدار کے آسمان پر بیٹھا دیا پھر وہ حاکم وقت ساری عمر دنیا وی نعمتو ں اور دولت کے انبار لے کر حاضر ہو تا رہا لیکن آفرین ہے اِن بوریا نشینوں پر لاکھوں سونے کی اشرفیاں یہ سورج غروب ہو نے سے پہلے مساکین ضرورت مندوں میں بانٹ دیتے ‘ ایسے ہی عظیم بو ریا نشین سلسلہ چشت کے بابا فرید الدین مسعود گنج شکر ہمیں نظر آتے ہیں راہ حق میںجس قدر مجاہدے تزکیہ نفس ریاضت فاقہ کشی آپ نے کی کسی اور نے نہ کی ‘ آپ خو د بیان فرماتے ہیں کہ میں بیس سال تک عالم تفکر میں کھڑا رہا اپنی ہو ش نہ تھی یہاں تک کہ پائوں سوج جاتے پائوں سے خون رسنا شروع ہو جاتا کھانے پینے تک کا ہوش نہ رہتا کثرت فاقہ کشی اور مجاہدوں کی وجہ سے آسانی سے چلنا بھی مشکل تھا چند قدم چلتے گر جاتے ‘ عصا کو چھوڑ کر لڑکھڑا کر چلنا شروع کر دیا کہ چہرہ متغیر ہو گیا شیخ نظام الدین اولیاء نے وجہ پو چھی تو فرمایا اللہ کو چھوڑکر عصا کا سہارا لیا تو خدا کی نا فرمانی ہو گئی کہ تم غیر کا سہارا لیتے ہو اِس لیے اب عصا کا سہارا بھی چھوڑ دیا شہرت کے بعد بھی فقیرانہ طرز زندگی جاری رہا تاریخ کے عظیم صوفی زمین پر بیٹھ کر رشد و ہدایت کے مو تی بانٹتے ساری زندگی فقیرانہ عسرت اور درویشانہ استغنا میں بسر کر دی کپڑے پھٹ بھی جاتے تو الگ نہ کر تے ایک بار کر تا بہت پرانا ہو گیا بہت سارے پیوند لگ گئے جگہ جگہ سے پھٹ گیا۔
کسی دیوانے نے نیا کر تا پیش کیا تو اس کی دل جوئی کے لیے پہن لیا اُس کے جانے کے بعد اپنا کر تہ کسی کو تحفہ دیا اور پرانا یہ کہہ کر پہن لیا کہ جوذوق اِس پرانے کر تے میں ہے وہ نئے لباس میں کیا ہے گھر میں اکثر فاقو ں کا ڈیرہ رہتا دن میں کمبل اوڑھتے رات کو اُسی میں سو جاتے فاقہ کشی کی کثرت سے زوجہ نے آکرشکایت کی کہ بھوک سے چھوٹا بچہ مر رہا ہے تو بو ریا نشین نے فرمایا فرید کیا کر ے اگر تقدیر میں یہی لکھا ہے تو جو بھی نذر آئی راہ خدا میں بانٹ دیتے اور ساتھ فرماتے خدا کی راہ میں جو بھی دیا جائے سراف نہیں اور جو بھی غیر اللہ پر خر چ کیا جائے وہ اسراف ہے انسانوں سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک دفعہ چار درویش آپ کے پاس آئے جب جانے لگے تو بابا جی نے نہیں کہا وہ بیابان کی طرف سے نہ جائیں لیکن وہ نہ مانے ادھر ہی چلے گئے ان کے جانے کے بعد زاروقطار رونا شروع کر دیا بعد میں پتہ چلا کہ بیابان میں باد سموم کی وجہ سے چاروں درویش مارے گئے ایک بار شدید بیماری اور پائوں میں چوٹ کی وجہ سے مریدوں کے درمیان آپ چار پائی پر بیٹھ گئے خود کو اونچی جگہ پاکر بار بار معذرت کی کہ میں آپ لوگوں سے اونچا بیٹھا ہوں مرشد کریم خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کی جگہ بیٹھے کے بعد آپ بلا شبہ ہندوستان کی سب سے بڑی روحانی گدی پر بیٹھے تھے لیکن آپ نے دہلی چھوڑ دیا۔
اجو دھن میں جنگل میں آکر خدمت خلق میں مصروف ہو گئے زہد کا یہ عالم کہ ساری زندگی درویشانہ طرز زندگی میں ہی رہے نذر نیاز کا دائرہ وسیع ہوا تو بھی فقیرانہ طرز معاشرت کو ہی اوڑھنا بچھونا بنائے رکھا پھر اِس کا انعام خالق کائنات نے یہ دیا کہ سلاطین وقت فقیروں کی طرح اِس بوریا نشین کے در پر غلاموں کی طرح حاضری دیتے رہے تذکیہ نگاروں نے ایک خاص واقعہ بار بار لکھا ہے کہ فخر الدین جو نا نامی لڑکا اپنے بوڑھے والدین کے لیے جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لایا کر تا تھا پھر ان لکڑیوں کو بیچ کر پیسے حاصل کر تا جن سے گھر چلتا ایک دن وہ حسب معمول جنگل میں لکڑیا ں کاٹنے آیا ہوا تھا تو اُسے خبر ملی کی اجودھن میں کو ئی حاکم آیا ہے اُس کے سپاہی لوگوں سے اپنی پسند کی چیزیں چھین رہے ہیں لہٰذا اِس خوف سے اُس نے اپنی لکڑیاں جنگل میں ہی چھپا دیں تا کہ اُن کے جانے کے بعد رات کو وہ لکڑیاں شہر جا کر بیچ کر گھر کا خرچہ نکال لے گا رات کے اندھیرے کے بعد لڑکے نے لکڑیاں اٹھا لیں اور شہر آگیا لیکن رات کے وقت کوئی گاہک نہ ملا توپریشان ہو اپھر دل میں خیال پیدا ہوا کہ جلدی آج لکڑیاں بابا فرید کے لنگر خانے میں دے آتا ہوں پھر اُس نے لکڑیاں بابا فرید کے سامنے ڈھیر کر دیں تو بابا فرید بولے تم ان لکڑیوں کے کتنے پیسے لو گے تو جونا بو لا جناب آپ جو بھی دیں گے۔
میں خوشی سے لے لوں گا لیکن بابا فرید بار بار اصرار کر رہے تھے کہ بتائو تم کو کتنے پیسے دوں تو جو نا نہایت ادب سے بولا جناب لکڑیاں کو نسی بہت قیمتی چیز ہیں جن کے بدلے میںآپ مجھے ہندوستان کی حکمرانی دے دیں گے لڑکے کی بات سن کر بابا فرید چونکے غور سے لڑکے کو دیکھا تو خاص کیفیت میں بولے جائو فرزند ہم نے تم کو ہندوستان کا بادشاہ بنا دیا اور جب بادشاہ بنوں تو غریب لوگوں کو نہ بھولنا قافلہ شب و روز چلتا رہا کہ فخر الدین کو صو بہ ملتان کے حاکم نے دروغہ اصطبل بنا دیا اپنی محنت سے جلد ہی وہ حاکم دیپالپور بن گیاپھر جب سلطان قطب الدین کے مکار غلام خسروخان نے اپنے آقا کو قتل کر دیا تو یہی فخر الدین اپنے مختصر لشکر کے ساتھ دہلی پر حملہ کر تا ہے مکار خسرو خان کو قتل کر کے غیاث الدین بلبن کے نام سے تخت دہلی پر رونق افرو ز ہوا بادشا ہ بننے کے بعد بابا فرید سے کیا ہوا وعدہ بھو لا نہیں ساری زندگی غریبوں کی مدد کی اجو دھن کے لوگوں کے لیے ایک نہر کھدوائی اور ساری زندگی پاک پتن سلامی دیتا رہا درویش کی ایک نگاہ نے لکڑ ہا رے کو تاج تخت کا وارث بنا دیا پھر صدیوں بعد جب امیر تیمور دنیا کو فتح کر نے کی غر ض سے وحشی درندوں اور دھماکہ خیز بارود کے ساتھ شہروں کے شہر کو راکھ کا ڈھیر بنا کر ملتان کے راستے پاکپتن پہنچا تو سارے لوگ تیمور کے خوف سے شہر چھوڑ کر جنگلوں میں جا بسے راستے میں تیموری لشکر کو جو بھی نظر آتا اُس کو قتل کر دیتے بستیوں کو نذر آتش کر دیتے یہی خوانخوار لشکر جب اجو دھن میں داخل ہوا اور قتل و غارت لوٹ مارا کا بازار گرم کر نے لگا تو کسی نے بتا یا یہاں پر عظیم صوفی شاعر اور بزرگ بابا فرید گنج شکر کا مزار ہے تو فوری طور پر امیر تیمور نے لشکر کو حکم دیا کہ اِس درویش کے صدقے اجو دھن کے لوگوں کو عام معافی دی جاتی ہے پھر خود بھی فریدی آستانہ پر حاضر ہو کر عقیدت کا اظہار کیا صدیوں پر صدیاں گزرتی چلی گئیں لیکن روز اول سے آج تک ہر دور کے سلطان وقت نے اِس بوریا نشین کے آستانے پر حاضری دینا عظیم سعادت سمجھی۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org