تہران (اصل میڈیا ڈیسک) ایران میں نومبر کی عوامی تحریک میں جان قربان کرنے والے افراد کے ساتھ اظہار یک جہتی کے لیے بدھ کی شب ملک کے کئی شہروں میں مظاہرے ہوئے۔ ان مظاہروں کی کال سوشل میڈیا کے ذریعے دی گئی تھی۔
دارالحکومت تہران کے مغرب میں واقع شہر قلعہ حسن خان میں ایک بڑے مجمع نے احتجاج کیا۔ شوسل میڈٰیا پر وائرل ہونے والے وڈیو کلپوں کے مطابق اس دوران نوجوانوں نے “خامنہ ای مردہ باد” کے نعرے لگائے۔
ایران کے مغربی شہر کرمان شاہ میں درجنوں افراد نے کاراج اسکوائر کے نزدیک مظاہرہ کیا۔ مظاہرین نے خامنہ ای مردہ باد کے نعرے لگائے جب کہ سیکورٹی فورسز نے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ان پر دھاوا بول دیا۔
اصفہان میں سیکورٹی فورسز نے احتجاج کے واسطے اکٹھا ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہوائی فائرنگ کی۔ لندن میں فارسی زبان کے چینل “من و تو” نے احتجاجی ہجوم کے وڈیو کلپ نشر کیے۔
ادھر ایرانی کردستان صوبے کے صدر مقام سنندج میں کارکنان نے وڈیو کلپ نشر کیے جن میں سیکورٹی فورسز کو آنسو گیس کے گولوں اور ہوائی فائرنگ کے ذریعے مظاہرین کو منتشر کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح رشت، بابُل، اسلام شہر، شہریار اور اراک میں بھی گذشتہ رات محدود پیمانے پر احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
بدھ کے روز کئی وڈیو کلپ وائرل ہوئے جن میں جنوب میں اہواز سے لے کر شمال مشرق میں تبریز تک زیادہ تر صوبوں میں اسپیشل سیکورٹی فورسز اور انسداد ہنگامہ آرائی فورس کے یونٹوں کو بڑی تعداد میں تعینات دیکھا گیا۔
ایرانی حکام نے بدھ کی صبح کئی صوبوں اور شہروں میں انٹرنیٹ سروس منقطع کر دی۔ یہ اقدام جمعرات کے روز احتجاجی مظاہروں کے پیش نظر کیا گیا جن کی کال سوشل میڈیا کے ذریعے دی گئی ہے۔
یاد رہے کہ ایرانی حکام نے نومبر کے احتجاجی مظاہروں میں ہلاک ہونے والے نوجوان بویا بختیاری کے والدین اور گھرانے کے دیگر افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ ان لوگوں نے شہریوں کو دعوت دی تھی کہ وہ بختیاری کے چالیس ویں کے سلسلے میں منعقد محفل میں شرکت کریں۔
نومبر میں احتجاجی مظاہروں کے دوران اپنی جان سے ہاتھ دھونے والے بہت سے افراد کے اہل خانہ نے خوف کی دیوار گراتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ اپنی اولاد کی موت کے بعد چالیس ویں کی رسم مقامات عامہ پر انعقاد کے ذریعے پوری کریں گے۔
حکام کو اندیشہ ہے کہ چالیس ویں کی یہ تقاریب مظاہروں میں تبدیل ہو سکتی ہیں۔
خبر رساں ایجنسی “رائٹرز” نے پیر کے روز ایرانی وزارت داخلہ کے 3 ذمے داران کے حوالے سے یہ بات بتائی کہ حالیہ احتجاج کے دوران تقریبا 1500 افراد ہلاک ہوئے۔ ان میں 17 کم سن افراد اور 400 کے قریب عورتیں شامل ہیں۔