نئی دہلی (اصل میڈیا ڈیسک) بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف کرسمس کے روز بھی احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا اور اس کے خلاف اب کئی دیگر حلقوں کے ساتھ ساتھ مسیحی رہنماؤں کی جانب سے بھی آوازیں بلند ہونے لگی ہیں۔
بدھ پچیس دسمبر کو دارالحکومت نئی دہلی کی جامعہ ملیہ اسلامیہ، جو ان احتجاجی مظاہروں کا مرکز ہے، میں کرسمس کے جشن کو مظاہرین کی جانب سے انوکھے انداز میں منایا گيا۔ مسیحی مکتب فکر کی کئی سرکردہ شخصیات جامعہ پہنچیں اور طلبہ کے ساتھ شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف اپنی آواز بلند کی۔ اس موقع پر بھارتی آئین کو پڑھا گيا اور اس کی پاسداری کا عہد کیا گيا۔ اس موقع پر دہلی کے انسانی حقوق کے کئی کارکنوں نے انقلابی گیت گائے اور کرسمس کا کیک کاٹا گیا۔
اس میں آل انڈيا کرسچئن مائناریٹی فرنٹ کے صدر فلپ کرسٹی اور سوامی اگنی ویش جیسی کئی معروف شخصیات شامل ہوئیں۔ دہلی کے شاہین باغ علاقے میں بھی لوگ بڑی تعداد میں سڑکوں پر نکلے اور شہریت سے متعلق نئے قانون کے خلاف مظاہرہ کیا۔ ملک کے دیگر حصوں سے بھی احتجاجی مظاہروں کی خبریں ہیں۔
اس دوران معروف کرکٹ مبصر ہرشا بھوگلے نے بھی اس متنازعہ قانون کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ انہوں نے اس سے متعلق اپنی فیس بک پر ایک طویل پوسٹ میں لکھا ہے کہ حکومت کے لیے فیاض ہونے کا یہ اچھا وقت ہے۔ انہوں نے لکھا، ’’ہمارے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی اہم وجہ انتخابات کا جیتنا نہیں ہونا چاہیے۔ میرے تجربے کے مطابق کھلے ذہن اور آزادانہ طور پر لوگوں کو موقع فراہم کر کے زیادہ انتخابات جیتے جا سکتے ہیں۔‘‘
اس دوران معروف سماجی کارکنان اور دانشوروں پر مشتمل ’فیکٹ فائنڈنگ ٹیم‘ نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے طلبہ پر ہونے والے تشدد پر ایک رپورٹ پیش کی ہے۔ اس رپوٹ میں فورسز پر حد سے زیادہ طاقت کے استعمال کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ فورسز کی کارروائی میں مذہبی عصبیت اور جانبیت کا پہلو نمایاں ہے۔ اس ٹیم میں شامل معروف سماجی کار کن ہرش مندر نے ڈی ڈبلیو سے بات چيت میں کہا، ’’یونیورسٹی کیمپس میں طلبہ کے خلاف سٹین گرینیڈ استعمال کیےگئے، جن کا استعمال عموما جنگ یا پھر شدت پسندی کے خلاف آپریشن میں ہوتا ہے۔‘‘
یہ رپورٹ طلبہ، اساتذہ اور فیکلٹی کے عینی شاہدین سے بات چیت کی بنیاد پر تیار کی گئی ہے اور علی گڑھ میں طلبہ کے خلاف کارروائی کو ’’بےلگام انسانی حقوق کی پامالی‘‘ سے تعبیر کیا گيا ہے۔ ٹیم میں شامل انسانی حقوق کے سرکردہ کارکن جان دیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یونیورسٹی میں مظاہروں کو روکنے کے لیے حکومتی انتظامیہ نے طاقت کا بےجا استعمال کیا، ’’پولیس نے بلا اشتعال اتنی سخت کارروائی کی، پرامن مظاہرین پر اس طرح بے دریغ طاقت کے استعمال کی بہت کم مثالیں ملتی ہیں۔ اس میں اسٹین گرینیڈ لگنے سے ایک طالب علم کا ہاتھ پوری طرح سے پھٹ گيا اور وہ اپنے ایک ہاتھ سے محروم ہو گيا۔‘‘
’’علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا محاصرہ‘‘ کے نام سے اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں کہا گيا ہے کہ فورسز نے طلبہ پر حملہ کرتے وقت مبینہ طور پر ’’جے شری رام‘‘ جیسے قابل اعتراض نعرے لگائے اور طلبہ کو دہشت گرد کہا۔ اس سے متعلق ڈی ڈبلیو کے ایک سوال کے جواب میں ہرش مندر نے اس کی تصدیق کی اور کہا، ’’بہت سے طلبہ اور فیکلٹی کے ارکان نے اس بات کی تصدیق کی کہ کچھ پولیس اہلکار کارروائی کے دوران ’جے شری رام‘ کے نعرے لگا رہے تھے اور طلبہ کو آتنک وادی کہہ رہے تھے۔‘‘ انہوں نے اس بات پر افسوس کا اظہار کیا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے بھی طلبہ کا ساتھ نہیں دیا اور اس قدر طاقت کے استعمال سے طلبہ سہم گئے۔
دریں اثناء ریاست اترپردیش کی انتظامیہ نے رام پور میں شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دوران جن سرکاری املاک کو نقصان پہنچا تھا، اس کی بازیابی کے لیے دو درجن سے زائد افراد کو نوٹس بھیجا ہے۔ تقریبا پندرہ لاکھ روپے کے نقصان کے لیے اٹھائیس افراد کو یہ نوٹس موصول ہوا ہے۔
گزشتہ ہفتے رام پور میں ایک نوجوان کی ہلاکت کے بعد پرتشدد مظاہرے پھوٹ پڑے تھے، جن میں پولیس کی ایک گاڑی اور چار موٹر سائیکلوں کو آگ لگا دی گئی تھی۔ اس کے بعد ہی یو پی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے پرتشدد مظاہروں میں شامل مبینہ افراد سے انتقام لینے کا اعلان کرتے ہوئےکہا تھا کہ نقصان کی ذمہ داری مظاہرین پر ہے اور انہی سے پیسے وصول کیے جائیں گے۔ اس کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے انتظامیہ نے گزشتہ ہفتے ہی مظفر نگر میں ساٹھ کے قریب دکانوں کو سر بمہر کر دیا تھا۔ اس سلسلے میں درجنوں افراد کو گرفتار اور سینکڑوں کے خلاف کیسز درج کیے گئے ہیں۔