منشیات عالمی مسلہ ہے جس پر قابو پانے کے لیئے اجتماعی اور انفرادی کاوشیں ہو رہی ہیں۔ترقی یافتہ ممالک سے لے کر ترقی پذیر ممالک اس سماجی مسلے سے نمٹنے کے لیئے مقدور بھر کوششیں کر رہے ہیں۔حکومتوں کے ساتھ ساتھ سماجی تنظیمیں بھی اپنے وسائل کے مطابق منشیات کے پھیلائو کو کم کرنے میں معاونت کر رہی ہیں۔ معاشرتی برائیوں کے خلاف جو کوئی جتنا بھی کام کر رہا ہے وئہ قابل تحسین ہے کہ خود غرضی اور بے حسی کے اس دور میں دوسروں کے متعلق اچھا سوچنا بھی صدقہ ہے۔
علی مسجد میںجمعہ کی نماز میں خطبہ سے پہلے مولانا نے ڈی پی او چکوال کا منشیات کے متعلق پیغام پڑھ کر سنایا کہ تمام طبقہ فکر کے افراد منشیات کے پھیلائو کو کم کرنے میں اپنا اپنا کردار ادا کریں اور اپنے بچوں کو منشیات سے محفوظ رکھنے کے لیئے اُن پر نظر رکھیں۔گلی محلے میں ایسے مشکوک لوگوں کو قانون کے حوالے کریں جو منشیات فروشی میں ملوث ہیں ۔پیغام بڑا اہم تھا سوچا کیوں نہ قلم کا قرض اور لفظوں کا صدقہ بھی دیا جائے۔اہل قلم پولیں کے منفی رویوں کوسامنے لانے کے ساتھ ساتھ مثبت کردار کو بھی داد تحسین پیش کریں۔
منشیا ت دماغ میں کیمیاوی تبدیلیاں لا کر موڈ،مزاج اور کار کردگی کو بدل دیتی ہیں۔تمام منشیات یہ طاقت رکھتی ہیں کہ سوچ کو بدل دیں۔ذہن کو نقصان پہنچائیں جسم،برتائو اور تعلقات کو متاثر کریں۔تمام منشیات تباہ کن ہیں۔ معاشی اور معاشرتی تمام عوامل کا تعلق انسانی صحت سے ہوتا ہے۔جب صحت ہی خراب ہو جائے تو انسان معاشی بدحالی کا شکار ہوکر معاشرے میں اپنا مقام کھو بیٹھتا ہے۔منشیات کے استعمال سے صحت،معیشت اور معاشرتی حیثیت تباہ ہو جاتی ہے۔ نشے کا آغاز زیادہ تر نشہ کرنے والوں کی صحبت سے ہوتا ہے۔ منشیات کے عادی افرادآپ کو نشہ کرنے کی ترغیب دیں گے۔پہلے پہلے مفت منشیات بھی مہیا کریں گے۔اگر اپ اُن کی پُرفریب باتوں میں آگئے اور منشیات کاا ستعمال شروع کر دیا تو پھر زندگی بھر پچھتانا پڑے گا۔ایسے لوگ آپکے دوست نہیں دشمن ہیں۔آپ کو شاید اس بات کا بعد میں احساس ہو کہ آپ نے منشیات کا استعمال کرکے اپنے بہت سارے اچھے دوست کھو دیئے ہیں اور اپنے لیئے تعلیم،صحت اور روزگار میں ترقی کے مواقع بہت محدودد کر لیئے ہیں۔
سماجی تبلیغ دراصل مذہبی تبلیغ ہی ہوتی ہے۔سماجی تبلیغ کا دائرہ کار بڑھا کر بہت سارے سماجی مسائل پر قابو پایا جا سکتا ہے۔امریکا کی کولمبیا یونیورسٹی کی تحقیق کے مطابق مذہب سے وابستگی رکھنے والے افراد نسبتاً کم نشے کے عادی ہوتے ہیں۔اُنہوں نے نشے کا علاج کرنے والے معالجین کو کہا ہے کہ وئہ علاج کے ساتھ ساتھ مذہبی وابستگی اور روحانیت کو بھی علاج کے لیئے استعمال کریں۔ امریکہ میں ١٩٦٠ء سے منشیات سے پاک سکول قائم ہیں۔پاکستان میں بھی منشیات سے پاک سکول قائم ہونے چاہیں۔ انسداد منشیات کے سلسلے میں ما ںکے کردار کو فعال کیا جائے تاکہ پورا گھر منشیات سے محفوظ رہ سکے۔
منشیات کی ڈیمانڈ اینڈ سپلائی لائن کو غیر فعال کرنا ہوگا۔منشیات کی علاج گاہوں کو منافع بخش کاروبار بننے کے عمل کی حوصلہ شکنی ہونی چاہیے۔نشے کے مریضوں کے لیئے فری علاج گاہیں ناگزیر ہیں۔منشیات سے پاک پاکستان کی منزل کے حصول کیے لیئے کثیر الجہتی اقدامات کی ضرورت ہوتی ہے۔اربابِ اختیارضلع چکوال میںبھی نشے کے علاج کے لیئے فری علاج گاہ تعمیر کرائیں۔ڈرگ منی اور اس کے استعمال کی مانیٹرنگ بہت اہمیت رکھتی ہے ۔انسداد منشیات کیے لیئے کام کرنے والی تنظیموں کو فلااحی کرپشن سے پاک کرنا ہوگا۔
اگر کوئی ادارہ،خاندان یا گھر منشیات کی لعنت سے تا حال محفوظ ہے تو ہمیں اس پر اطمینان نہیں کر لینا چاہیے کیونکہ کوئی بھی ادارہ کوئی بھی فرد کسی بھی وقت منشیات کا شکار ہو سکتا ہے۔ اس دنیا میں وہی ممالک اور قومیں آگے نکل سکیں گی جو اپنے باشندوں کو منشیات سے محفوظ رکھ سکیں گی۔منشیات جن کا شکار زیادہ تر نوجوان ہوتے ہیں اور جس ملک و قوم کے نوجوان منشیات کے قیدی بن جائیں اُس ملک و قوم کا روشن مستقبل غیر یقینی ہو جاتا ہے۔ تعمیر نو کے سارے منصوبے ادھورے رہ جاتے ہیں۔اقتصادی اصلاحات بے کار ہو جاتی ہیں اور خوشحال پاکستان کا تصور دھندلانے لگتا ہے۔
ہم اپنے نوجوانوں کو منشیات کا غلام بننے سے روکیں۔ تاکہ ہم بہت سارے طلباء اور صنعتی ورکروں کو منشیات کے حوالے کرنے اور بہت ساری نسلوں کو منشیات سے تباہ کرنے کے تجربے سے بچ سکیں۔