اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان السعود کے دورہ پاکستان پر ملک کے کئی حلقوں میں چہ مگوئیاں شروع ہو گئی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ وہ کوئی معاشی پیکج لے کر آئے ہیں اور کچھ کے خیال میں وہ’سفارتی نقصان کے ازالے‘ کے لیے آئے ہیں۔
سعودی وزیر خارجہ نے آج نہ صرف اپنے ہم منصب شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی بلکہ وہ وزیر اعظم عمران خان سے بھی ملے۔ ریڈیو پاکستان کے مطابق ان ملاقاتوں میں کشمیر سمیت کئی امور زیر بحث آئے اور دو طرفہ دلچسپی کے معاملات پر بھی بات چیت ہوئی۔
ناقدین کا خیال ہے کہ کوالالمپور کانفرنس میں شرکت نہ کر کے پاکستان کو جو شرمندگی و ہزیمت اٹھانی پڑی، اس کا مداوا سعودی پیسے یا معاشی پیکج سے ممکن نہیں ہے۔ معروف سیاست دان، بلوچستان اسمبلی کے سابق اسپیکر اور نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سینیٹر محمد اکرم بلوچ کا کہنا ہے کہ اس دورے کا مقصد پاکستان کو تھوڑا ٹھنڈا کرنا ہے، ”ترک صدر طیب ایردوآن کے بیان کے بعد ملک میں یہ تاثر پیدا ہوا ہے کہ پاکستان ایک سعودی کالونی بن گیا ہے، جس نے ریاض کے دباؤ پر ایک ایسی کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا، جس کا تذکرہ وزیر اعظم عمران خان نے خشوع خضوع کے ساتھ کیا تھا لیکن سعودی عرب کے حالیہ دورے کے بعد عمران خان نے نہ صرف خود اس کانفرنس میں شرکت نہیں کی بلکہ وزیر خارجہ کو بھی نہیں جانے دیا، جس سے حکومت کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا۔‘‘
واضح رہے کہ ترک صدر ایردوآن نے کہا تھا کہ پاکستان نے سعودی دباؤ پر کانفرنس میں شرکت نہیں کی کیونکہ سعودی عرب نے تقریبا چار ملین پاکستانیوں کو ملک سے نکالنے اور قرض واپس لینے کی دھمکی دی تھی۔ اس بیان کی اسلام آباد میں قائم سعودی عرب کے سفارتخانے کی طرف سے تردید آگئی تھی لیکن ملک کے کئی حلقے اس تردید کو ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔
اکرم بلوچ اس تردید کو بے وزن قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اب ممکن ہے کہ سعودی وزیر کوئی معاشی پیکج لے کر آئے ہوں، ”ریاض پیسے کی بنیاد پر کام کرتا ہے۔ ان کے خیال میں پیسے سے تمام معاملات صحیح ہو جاتے ہیں۔ تو ممکن ہے کہ وہ کوئی مالی پیکج لے کر آئے ہوں۔ لیکن جو بے عزتی ہماری بحیثیت قوم ہو چکی ہے، اس کا ازالہ کسی پیسے یا مالی پیکج سے نہیں ہو گا۔‘‘
کچھ مبصرین کا خیال ہے کہ اس کانفرنس کے حوالے سے طیب ایردوآن نے جو بیان دیا، اس سے نقصان سعودی عرب کا ہوا۔ معروف سفارت کار شمشاد احمد خان کا کہنا ہے نقصان پاکستان کو نہیں ریاض کو ہوا ہے، ”مجھے لگتا ہے کہ سعودیوں کو بعد میں احساس ہوا ہو کہ انہوں نے یہ ٹھیک نہیں کیا کیونکہ اس سے پاکستان کے لئے تھوڑی مشکل پیدا ہوئی۔ تو وہ اب اسلام آباد کو اس حوالے سے منانے کے لیے آئے ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس میں غلطی دوسرے ممالک کی بھی تھی، ”طیب ایردوآن کو اس طرح کا بیان نہیں دینا چاہیے تھا۔ مہاتیر کا بیان مناسب تھا۔ اس کانفرنس کے حوالے سے منتظمین کو ریاض کو اعتماد میں لینا چاہیے تھا اور یہ واضح کرنا چاہیے تھا کہ یہ کسی کے خلاف نہیں۔ سعودیوں نے اس کو اپنے خلاف سمجھا اور ہم سعودیوں کو ناراض نہیں کر سکتے کیونکہ ہمارے اپنے قومی مفادات ہیں، جنہیں پیش نظر رکھنا بہت ضروری ہے۔‘‘
تاہم اسلام آباد کی پریسٹن یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر امان میمن کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ ایک کانفرنس کا نہیں تھا بلکہ پاکستان کی خود مختاری کا ہے، ”اب یہ ملک میں تاثر ہے کہ ہماری خارجہ پالیسی اسلام آبا د میں نہیں ریاض میں بن رہی ہے۔ یہ سارے اقدامات اپنی خودمختاری کو گروی رکھنے کے مترادف ہیں۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ ممکن ہے کہ سعودی وزیر اپنا سرمایہ کاری کا وعدہ لے کر آئے ہوں،”لیکن ہمیں اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ سرمایہ کاری اور معاشی پیکج ہماری خودمختاری کو متاثر نہ کریں۔ اور ہمیں یہ بات سعودی وزیر خارجہ پر واضح کرنی چاہیے۔‘‘
پی ٹی آئی کی حکومت نے اقتدار میں آنے کے بعد کئی معاملات پر یو ٹرن لیا ہے۔ جس سے پارٹی رہنماؤں کے لیے پارٹی کی پوزیشن کا دفاع کرنا مشکل ہو رہا ہے۔ پارٹی کے سینئر رہنما اور سابق وفاقی وزیر اسحاق خاکوانی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو دو طرفہ تعلقات میں سعودی عرب سمیت کسی ملک کے دباو میں نہیں آنا چاہیے، ”سعودی عرب نے بھارت میں سرمایہ کاری کی لیکن کیا ہم سے اس نے پوچھا کہ ہم ناراض ہوں گے یا خوش۔ اسی طرح ریاض نے شام کے مسئلے پر بھی اپنے مفادات کو دیکھ کر پالیسی بنائی اور اسرائیل سے بھی تعلقات بہتر کرنے کی کوشش کی اور اسلام آباد نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ تو ہمارے کانفرنس میں شرکت کرنے پر سعودی عرب کو اعتراض کیوں ہے؟ عدم شرکت کی وجہ سے ہمیں نقصان ہوا۔‘‘