منشیات نہ صرف انسان اور اس کی زندگی بلکہ گھر، معاشرے اور قوم کو تباہ و برباد کر دیتی ہے اسی وجہ سے منشیات کو لعنت کہا جاتا ہے۔ ملتان میں تعینات وسیم احمد خان ریجنل پولیس آفیسر ملتان نے نوجوان نسل کو تباہی سے بچانے کیلئے آئس ہیروئن سمیت منشیات فروشوں کیخلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم دیا ہے۔ اور ریجن کے تمام پولیس افسران کو ہدایت کی ہے کہ وہ منشیات کے خاتمے کو جہاد سمجھ کر منشیات فروشوں کے خلاف بلاامتیاز سخت کاروائی عمل میں لائیں۔ بلاشبہ آئس ہیروئن کا مہلک نشہ تعلیمی اداروں سمیت سوسائٹی میں نوجوان نسل کو تباہ برباد کررہا ہے جو کہ کسی صورت قابل قبول نہیں۔
منشیات کے استعمال کی پہلی سیڑھی سگریٹ نوشی ہے، جبکہ پہلے سے نشہ کے عادی افراد بھی منشیات فروشوں کے آلہ کار بن کر دوسروں کو مفت منشیات کی لت لگا کر بعد ازاں انہیں منشیات فروخت کرنے لگتے ہیں۔منشیات کا استعمال اتنی بری عادت ہے کہ یہ انسان سے جائز و ناجائز ہر کام کروا لیتی ہے چاہے وہ کسی بے گناہ انسان کا قتل ہی کیوں نہ ہو۔جبکہ جرائم کے واقعات کو دیکھا جائے تو آدھے سے زیادہ جرائم نشے کی وجہ سے ہوتے ہیں، بیشتر ٹریفک حادثات بھی عموماً اسی باعث رونما ہوتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق صرف پنجاب میں منشیات استعمال کرنے والوں کی تعداد میں سالانہ 5لاکھ افراد کا اضافہ ہو رہا ہے ۔
اپر کلاس لوگ آئس کرسٹل، حشیش، ہیروئن کے ساتھ ساتھ مختلف ادویات کا استعمال کرتے ہیں، جبکہ مڈل کلاس کے لوگ فارماسیوٹیکل ڈرگز، شراب، چرس، پان، گٹکا، نسوار اور سگریٹ وغیرہ کا استعمال کرتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی کے سبب 70ہزار سے زائد افراد نے اپنی جانیں قربان کیں لیکن ہر سال پاکستان میں اس سے تین گنا زیادہ ہلاکتیں منشیات کی وجہ سے ہوتی ہیں۔ منشیات کا زہر ہمارے معاشرے کے مستقبل کو بھی دیمک کی طرح چاٹ رہا ہے، جہاںمنشیات سے 13سے 25سال کے نوجوان لڑکے لڑکیاں متاثر ہو رہے ہیں ۔
ہمارے معاشرے میں کم عمر افراد نشے کو بطور فیشن اپناتے ہیں جبکہ بالغ اور پختہ عمر کے لوگ ذہنی دباؤ اور دیگر امراض سے وقتی سکون حاصل کرنے کیلئے اس لعنت کا سہارا لیتے ہیں۔ہمارے معاشرے میں پان، نسوار، گٹکا، چھالیہ، سگریٹ جیسی نشہ آور اشیاء کو نشہ تصور ہی نہیں کیا جاتا، جبکہ درحقیقت انہی سے دیگر نشہ آور اشیاء کی طرف رغبت بڑھتی ہے ۔
منشیات میں سگریٹ، چھالیہ، نسوار، پان، چرس اور شیشہ وغیرہ کی مقبولیت کے بعد اب آئس نامی مہنگے نشے کا بھی اضافہ ہوگیا ہے جو کہ نوجوان نسل کے لیے زہر قاتل سے کم نہیں۔ نوجوانوں میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والا آئس نشہ بہت ہی طاقتور اور اثرپذیر ہے، جس کی ایک خوراک ہی انسان کو اس کا عادی بنادیتی ہے ۔ شفاف چینی کے دانوں کی شکل سے ملتے اس نشے کو گلاس یا کرسٹل کا نام سے بھی دیاجاتا ہے ، جوکہ ایکسپائر ہوجانے والی ادویات پیراسٹامول، پیناڈول، وکس، اور نزلہ و زکام کی دیگر ادویہ سے ایفیڈرین اور ڈیکسٹرو میتھارفن نکال کر تیار ہوتا ہے ۔ ماہرین نفسیات کے مطابق آئس کے استعمال کے اثرات انتہائی تباہ کن ہیں، جس سے انسان کا حافظہ کمزور ہوجاتا ہے اور یہ اعصابی امراض کے ساتھ گردوں اورجگر کے لیے بھی انتہائی مہلک ہے ۔
بدقسمتی سے اس نشے کا استعمال تعلیمی اداروں میں بھی فروغ پا رہا ہے ، جہاں اسکول کالج اورجامعات کے لڑکے لڑکیاں اس کے استعمال کی وجہ سے ذہنی اور جسمانی معذوری کے ساتھ ساتھ حلق کی خرابی، جگر کی خرابی، امراض قلب، قلت عمر، معدہ کے زخم، فاسد خون، تنفس کی خرابی، کھانسی، سردرد، بے خوابی، دیوانگی، ضعف اعصاب، فالج، ٹی بی، بواسیر، دائمی قبض، گردوں کی خرابی جیسی مہلک بیماریوں میں مبتلا ہورہے ہیں۔ ان حالات میں شدید ضرورت تھی کہ ہنگامی اقدامات کرتے ہوئے مختلف نشہ اور اشیاء کے استعمال پر قابو پایا جائے تاکہ ملک سے منشیات کی لعنت کا خاتمہ ہو اور قوم کا مستقبل کو محفوظ ہوسکے۔ بہت ضروری تھا کہ اس گھناؤنے دھندے میں ملوث افراد کے خلاف سخت کارروائی کرکے ان ضمیر فروشوں کو نشان عبرت بنایا جائے ۔
حکومتی اداروںومحکمہ پولیس کے ساتھ ساتھ والدین اور اساتذہ کو بھی چاہیے کہ وہ بچوں پر نظر رکھیں کہ وہ کن لوگوں میں اٹھتے بیٹھتے ہیں اور ان کے مشاغل کیا ہیں۔ملک کی سماجی و رفاہی تنظیموں، جماعتوں، ذرائع ابلاغ سے وابستہ افراد، ڈاکٹرز و طبی امور سے وابستہ افراد کی بھی مشترکہ ذمہ داری ہے کہ معاشرے سے منشیات کی لعنت کے خاتمے کے لیے اپنی اپنی سطح پر اور اپنے دائرہ کار میں مکمل کوشش کریں۔ میڈیا کے وسائل کو نشہ مخالف ذہن سازی کے لیے استعمال کیا جائے۔ نوجوان نسل میں شعور اجاگر کیا جائے کہ وہ نشے کو کبھی مذاق میں بھی استعمال نہ کریں اور نہ ہی کسی نشہ کرنے والے یا بیچنے والے شخص کے ساتھ دوستی کی جائے۔ کیونکہ جب آپ ایک مرتبہ کسی منشیات فروش یا استعمال کرنے والے شخص کے چکر میں پھنس کر نشے کے عادی بن جاتے ہیں تو پھر ساری زندگی اس کی بھاری قیمت چکانا پڑتی ہے جو کہ تباہی و بربادی پر منتج ہوتی ہے۔ منشیات فروشی کے خلاف آرپی او ملتان وسیم احمد خان کے اقدامات اور عزائم لائق تحسین ہیں۔ آر پی او ملتان وسیم احمد خان نے اپنے احکامات میں کہا ہے کہ ہاسٹلز اور گیسٹ ہاؤسز کی بھرپور سکریننگ کرکے منشیات فروشی کے مکروہ دھندے میں ملوث عناصر کو بے نقاب کیا جائے ۔ منشیات فروشی کے خلاف سول سوسائٹی اور تعلیمی اداروں کے سربراہان کو بھی باہمی تعاون کرتے ہوئے پولیس کے دست راست بننا چاہیے ، تاکہ ہماری نئی نسل منشیات کی لعنت سے محفوظ ہو سکے۔
Rana Aijaz Hussain
تحریر : رانا اعجاز حسین چوہان
ای میل :ranaaijazmul@gmail.com رابطہ نمبر:03009230033