“میریا شالوم” اسرائیلی فوج میں ایک خاتون سپاہی ہے۔ ایک دن شام کو اپنے گھر لوئی اور شراب کی بوتل اٹھا کر پہلا گلاس بھر دیا۔۔۔۔۔!
پھر سوشل میڈیا پر اپنے جعلی اکاونٹ پر جو “ام المؤمنین” کے نام سے عربی زبان میں بنا رکھا تھا، پر پوسٹ لگائی؛
“کیا عمر ابن خطاب خلافت کے زیادہ حقدار ہیں یا علی بن ابی طالب….؟”
پھر اپنے گلاس سے چند گھونٹ حلق میں اتارے اور بے صبری سے کمنٹس کا انتظار کرنے لگی۔
پہلا کمنٹ عراق سے خضیر نے لکھا: “یہ عمر ابن خطاب ہے کہ جس نے خلافت کو غصب کیا ہے اور اسکا مستحق نہیں ہے اور تم ناصبی ہو۔”
جواب میں سعودی عرب سے عبد الرحمن نے لکھا: “یقینا عمر ہی اس کا حقدار ہے اور اے عراقی! اے رافضی! اے کافر! تم اہل سنت کے یہودیوں سے بھی بدترین دشمن ہو۔”
میریا شالوم مسکرائی اور خوشی سے جھومتے ہوئے شراب کا دوسرا گلاس بھی پی لیا۔
تیسرا کمنٹ عبد السمیع نامی مصری جوان نے پوسٹ کیا: “میں چاہتا ہوں کہ اسکا جواب میں دوں۔ ہاں یہ عمر فاتح شیعہ اور فاتح مجوس ہیں۔”
یوں ایک دوسرے کو جواب دینے کا سلسلہ شروع ہوا اور شیعہ سنی ایک دوسرے کو گالیاں دینے لگے۔
میریا شالوم نے شراب کی بوتل کا ڈھکنا بند کیا اور فاتحانہ مسکراہٹ کے ساتھ اپنے بستر پر لیٹ گئی اور چند لمحوں بعد نیند کی پرسکون وادیوں میں جا چکی تھی۔۔۔۔!
مگر
اس لاحاصل بحث کے نتیجہ میں عراق، مصر اور شام کی پرامن آبادیاں خون کی ندیوں میں ڈوب چکی تھیں۔