بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا پوچھا جو ان سے آپ کا پردہ وہ کیا ھوا کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کی پڑ گیا
پاکستان ان چند ممالک میں سے ایک ھے جو ایک مخصوص نظریہ کی بنیاد پہ وجود میں آیا۔وہ نظریہ دینِ اسلام ھے۔آج اس نظریہ کو پسِ پشت ڈال دیا گیا اور زور سڑکوں، ہسپتالوں، سکولز، کالجز، یونیورسٹیاں اور مختلف اداروں کی تعمیر پہ لگا دیا گیا۔ کیا ھم نے یہ ملک صرف سکولز، کالجز، ادارے وغیرہ بنانے کے لیے حاصل کیا تھا؟ اگر یہی مقصد تھا تو ہندوستان سے علیحدگی کی ضرورت کیوں پیش آئی تھی؟ اس سے بڑھ کر صورتحال کی سنگینی اس حد تک ھے کہ اسی ملک میں شعائرِ اسلام کا مذاق اڑایا جا رھا ھے۔ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک اسلام مخالف قوتیں بر سرِ پیکار ھیں۔ وہ اندرونی اور بیرونی دونوں طرح سے سازشیں کر رھے ھیں۔ ایک بہترین سازش حقوقِ نسواں کے نام پہ بے حیائی کو عام کرنا ھے۔کچھ دنوں پہلے ایک لال لال طلبہ مارچ ھوا جس میں ”سرخ ھو گا سرخ ھو گا ایشیا سرخ ھو گا“ کے نعرے لگاۓ گۓ۔ یہ لال رنگ سوشلزم اور کمیونزم کی علامت تصور ھوتی ھے۔
فرانسیسی انقلاب کے بعد یہ بائیں بازو کی سیاست سے وابستہ ھے۔ اس سے پہلے آزادی حقوق نسواں کے نام پہ ایک مارچ ھو چکا جس میں ”میرا جسم میری مرضی“ آواز بلند کی گئی۔ افسوس اس بات کا ھے کہ مغرب اور یورپ میں اسلام کی بیٹی حجاب کے لیے لڑ رھی ھے مگر اس ملک میں جو اسلام کے نام پہ قائم ھوا، وہی بے حجابی کے لیے میدان میں نکل چکی ھے۔ مختلف پلے کارڈز دکھاۓ گۓ کسی پہ کچھ کسی پہ کچھ لکھا تھا حتی کہ بیان کرتے شرم محسوس ھوتی ھے۔ اسلام نے عورت کو کتنا بلند مقام دیا۔ کبھی ماں کی صورت میں، کبھی بیٹی کی صورت میں، کبھی بیوی کی صورت میں۔ اسلام سے قبل تو عورت کو نحوست سمجھا جاتا تھا جسے لڑکی کی بشارت ملتی تو اس کا چہرہ سیاہ ھو جاتا اور وہ غضب میں آ جاتا۔ زندہ بیٹی کو درگور کیا جاتا تھا۔ قرآن کہتا ھے کہ کل قیامت کے دن وہ بیٹی کہے گی کہ مجھے کس جرم میں قتل کیا گیا۔ اسلام نے عورت کو وہ مقام دیا کہ اس مقام کو پہچان لینے کے بعد کوئی عورت اس طرح کے بھونڈے کام کو تیار نہیں ھو سکتی۔
یہاں تک کہ عورت کوزمین پہ آہستگی سے قدم رکھنے کا حکم ملا اور خوشبو لگا کر باہر نکلنے سے منع کیا گیا تاکہ کوئی غیر اسکی خوشبو بھی نہ سونگھ سکے یوں اس کی عزت کو محفوظ کیا مگر آج اسی عورت کی تذلیل کی جا رھی ھے۔ کچھ وقت پہلے ایک عورت پروٹیکشن بل بھی بنایا گیا تھا جس کے تحت عورت خاوند کو اس کےاپنے گھر سے نکال سکتی ھے۔ یہ آۓ روز اسلام مخالف پالیسیاں بنا کر اسلام کو دبانے کی کوشش کی جا رھی ھے۔ مگر صد افسوس کہ جس یورپین اور امریکن معاشرے سے یہ نظریات لے کر آواز اٹھائی جا رھی ھے اس معاشرے کی تاریخ اٹھا کر دیکھیں اس معاشرے میں انیسویں صدی سے پہلے عورت کو شخص تسلیم نہیں کیا جاتا تھا۔ عورت کو ووٹ کا حق نہیں تھا۔ عورت سیکنڈ کلاس سٹیزن بھی تصور نہیں کی جاتی تھی اس معاشرے میں عورت ایک ٹشو پیپر کی طرح استعمال ھوتی تھی۔
آج اسی آزادی کا تصور پیش کیا جا رھا ھے۔حقیقت میں یہ مغربی عورت مظلوم ھے اس کو ایڈواٹیزمنٹ کے لیے استعمال کیا جاتا ھے۔اسی معاشرے میں بے شمار عورتوں کی عصمت ریزی کی جا رھی ھے کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کیا ان نام نہاد حقوق نسواں کی تحریک کے پاسبانوں نے کبھی عورت کی تجارت کے خلاف آواز اٹھائی؟ دراصل یہ عورت کو اصل اسلامی مقام سے دور کرنی کی سازش ھے۔طلباء یونین کی بحالی کے نام پہ فحاشی کو عام کیا جا رھا ھے۔جہاں تک طلبہ یونین کی بحالی کی بات ھے تو اس کا مخالف کوئی نہیں مگر اس طرح پاکستان میں بے حیائی کو عام کرنا ھر گز قبول نہیں۔ بہت سے کمیونسٹس کی طرف سے اظہار ہمدردی بھی کیا گیا طلباء یونین کے حوالے سے ہمدردی تو بجا ھے مگر سرخ ایشیا کے نعرے کچھ اور منظر کشی کر رہے ھیں جن کا طلباء سے کم از کم تعلق نہیں ھونا چاہیۓ۔کچھ کمیونسٹ کے مطابق تو کمیونزم کا مذہب سے کوئی تصادم نہیں مگر یاد رکھیۓ کہ اس کے مقابل تو مذہبی طبقہ ہی ھے جن کا دعوی سر سبز ایشیا ھے۔ دونوں قوتوں میں تصادم ھوا تو بہت نقصان کا خدشہ ھے۔
یہ لال لال بھی میرا جسم میری مرضی کا تسلسل ھے لہذا اگر بی بی سی لندن پورا دن لال لال والوں کی لائیو کوریج کرتا رھا تو یہ کوئی بعید از قیاس بات نہیں۔ عجیب بات یہ ھے کہ مارچ طلباء یونین کی بحالی کا ھے مگر نعرے سر خ سرخ ایشیا کے ھیں۔ تصاویر سے تو یوں لگتا ھے کہ جب لال لال لہراۓ گا تو مرد کو کتا بنایا جاۓ گا۔ اسی طرح کا ایک لال انقلاب تو 1965 میں چاؤ سسکو نے رومانیہ میں لانے کا دعوی کیا تھا مگر اس سرخ انقلاب کا نتیجہ 1989 کو اس کی پھانسی کی صورت میں سب نے دیکھا۔ آج لبرلزم، سوشلزم اور سیکولرزم کے نام پہ اور عورت کی آزادی کے نام پہ اسلام مخالف چیزوں کو فروغ دیا جا رھا ھے۔ یہ عورت کی آزادی نہیں در حقیقت یہ عورت تک پہنچنے کی آزادی کی تحریک ھے۔ المختصر مخالفت صرف اسلام کی ھے۔ ملک پاکستان اس وقت بہت سی مشکلات سے گزر رھا ھے۔ کسی بھی صورت اس طرح کے واقعات کو برداشت نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان اسلام کے نام پہ قائم تو ھو گیا اس کا جھنڈا بھی سبز بنا دیا گیا اب اس ملک کو بھی سر سبز بنانا چاہیۓ۔