ورجینیا (اصل میڈیا ڈیسک) امریکا میں رواں برس اندھا دھند فائرنگ کے نتیجے میں شہریوں کے قتل کے واقعات ریکارڈ اضافہ دیکھا گیا۔ حالیہ امریکی تاریخ میں 2019ء قتل عام اور فائرنگ کے واقعات کے حوالے سے بدترین سال رہا۔
خبر رساں ادارے اے پی، امریکی خبار یو ایس اے ٹوڈے اور نارتھ ایسٹرن یونیورسٹی نے اعداد و شمار کے جائزے کے تناظر میں بتایا ہے کہ سن 2019ء قتل عام کے اعتبار سے بدترین رہا۔ اس سال مجموعی طور پر فائرنگ کے 41 واقعات رونما ہوئے، جن میں مجموعی طور پر دو سو گیارہ افراد مارے گئے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان میں 33 واقعات میں آتشیں اسلحے کا استعمال ہوا۔
ان اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے کہ سن 1970 کی دہائی کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ امریکا میں قتل عام کے اتنے زیادہ واقعات پیش آئے ہیں۔ اس سے قبل سن 2006 میں ایسے 38 واقعات رپورٹ ہوئے تھے۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ رواں برس قتل عام کے واقعات میں اضافہ تو ہوا، تاہم ان واقعات میں ہونے والی ہلاکتیں سن 2017 کے مقابلے میں کم رہیں۔ سن 2017ء میں مجموعی طور پر 224 افراد ہلاک ہوئے تھے اور ان واقعات میں سے لاس ویگاس میں ایک عمارت سے فائرنگ کر کے ایک ہجوم کو نشانہ بنانے کے واقعے میں 58 افراد مارے گئے تھے۔ اس واقعے کو جدید امریکی تاریخ کا اس انداز کا انوکھا اور بدترین واقعہ قرار دیا جاتا ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق رواں برس قتل عام کے آٹھ ایسے واقعات پیش آئے، جن میں آتشیں اسلحہ استعمال نہیں کیا گیا تھا بلکہ چاقو، کلہاڑی یا دیگر ہتھیاروں کی مدد لی گئی تھی۔ ان میں زیادہ تر ہلاکتیں، خاندانی جھگڑوں، منشیات اور جرائم پیشہ گروہوں کی لڑائی یا پھر حملہ آوروں کے اپنے ساتھی ملازمین یا رشتہ داروں پر غصے اور طیش کی حالت میں حملوں کی وجہ سے ہوئیں۔
رواں برس ورجینیا بیچ اور ڈیٹن اور اوڈیسا کے علاوہ ریاست ٹیکساس کے ایل پاسو شہر میں پیش آنے والے واقعات کے بعد امریکا بھر میں خصوصاﹰ ڈیموکریٹ حلقوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر آتشیں اسلحے تک رسائی محدود بنانے کے لیے قانون سازی اور نئے اور مزید سخت ضوابط متعارف کرائے جانے پر زور دیا گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ قتل عام کے آٹھ واقعات ریاست کیلی فورنیا میں پیش آئے، حالاں کہ اسلحے تک رسائی کے اعتبار سے اس امریکی ریاست میں سخت ترین قوانین نافذ ہیں۔
ان اعداد و شمار میں تاہم یہ بات واضح طور پر نہیں بتائی گئی کہ ان واقعات میں مجموعی طور پر کتنے افراد زخمی ہوئے۔