‘جلالپور کندووال نہر کیلئے تاریخی کاوشیں اور اصل حقائق ” ہر پاکستانی بلخصوص ضلع جہلم سے تعلق رکھنے والے ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے جاننا چاہتے ہیں۔ پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان کے دورہ تحصیل پنڈدادنخان اور نہر کے افتتاح کے حوالہ سے معروف جرنلسٹ و کالمسٹ ڈاکٹر تصور حسین مرزا نے ضلع جہلم سے معروف سیاسی,سماجی اور صحافتی شخصیت مرزا سعید محمود بیگ جہلمی کا خصوصی انٹرویو۔۔۔۔۔۔ قائرین کی دلچسپی کے لئے کیا ہے؟ تاکہ ‘جلالپورکندووال نہر کیلئے تاریخی کاوشیں اور اصل حقائق سے عوام الناس آگاہ ہو سکے ! آج کل تحصیل پنڈدادنخان کے دیرینہ مطالبہ جلالپور کندووال نہر کے بڑے چرچے ہیں اور اس حوالہ سے وزیراعظم پاکستان عمران خان کا دورہ ، نہر کاسنگ بنیاد رکھااس حوالہ سے نہر کی منظوری اسکی تاریخی کوششوں اور بھاگ دوڑ کی باتیں زباں زدعام ہیں اور ہر کوئی اپنے طریقہ سے اس موضوع پر محوگفتگو ہے،آج علامہ اقبال میڈیا کلب جہلم کی ٹیم نے اس حوالہ سے اصل اور حقیقی تاریخ آپکے سامنے پیش کرنا چاہیں گے اور اسکے لئے ہم نے ضلع جہلم کے معروف سیاسی وسماجی رہنما سابق امیدوار ایم این اے و ٹکٹ ہولڈر تحریک انصاف اور سینئرصحافی مرزاسعید محمود بیگ سے ٹائم لیا ہے جو ہمیں صورت حال سے آگاہ کریں گے۔۔
سوال۔اسلام علیکم ورحمتہ اللہ وبراکاتہ مرزاصاحب،جناب سب سے پہلے تو یہ بتایئے کہ نہر کے اس منصوبہ کیلئے کب آواز اٹھائی گئی،اور پہلے کام کیوں نہ شروع ہوسکا؟ جواب۔ وعلیکم اسلام ورحمتہ اللہ وبراکاتہ، جی سکندر گوندل بہت شکریہ آپ نے مجھے اس اہم ایشو پر بولنے کا موقع دیا،بات یہ ہے کہ جلالپور کندوال نہر کا منصوبہ 1901 میں باقاعدہ شروع ہوا اور آج بھی اس کے اثرات موجود ہیں،لیکن جب جنگ عظیم اول میں ہمارے لوگ جرات و بہادری سے لڑے تو انگریز نے کہا کہ پسماندہ علاقے ہی سپاہی پیدا کرتے ہیں لہذا ہمارے علاقہ کو پسماندہ رکھنے کے لیے اگریز کی طرف سے نہرکے منصوبہ کو پس پشت ڈال دیا گیا،1966/67 میں جب قادرآبادلنک کینال اور نہرلوئرجہلم کا منصوبہ بنا تو رسول بیراج کے ڈیزائن میں اس پراجیکٹ کو رکھا گیا مگر” ارسا ”نے اس کی اجازت نہ دی۔ میں جب 1969/70میں گجرات کالج کی یونین کاصدر بنا تو تحصیل پنڈدادنخان کی پیاس کیلئے جی ٹی روڈ کے کنارے بھوک ہڑتالی کیمپ لگایا،ڈی سی گجرات کا بھتیجا میرا کلاس فیلو تھا اس نے جنرل عتیق الرحمٰن سے میری ملاقات کروائی، اور بعد ازاں وہ بذریعہ ٹرین پنڈدادنخان آئے اور نہر کی منظوری دی لیکن بدقسمتی سے پاکستان ٹوٹ گیا،پھر جب پی پی پی کی حکومت آئی تو ہم نے بھٹو شہید کا گجرات اسٹیشن پر استقبال کیا اور انکے ساتھی غلام مصطفےٰ کھر سے میری دوستی ہوگئی کھر بڑا پنجاب نواز انسان تھا،اس نے کہا یہ نہر دوسرے صوبے نہیں بننے دیتے اور ساتھ ہی مجھے چپ کروانے کیلئے لاہور بلا کر تحصیلدر کی نوکری کی پیشکش کردی،جسے میں نے ٹھکرا دیا اور میں نے اپنا اخبار نکال کر تحریک ”نہردو یا زہر دو” کا آغاز کردیا،غلام مصطفےٰ کھر نے نہر کی منظوری دے دی اور اس منصوبہ کا نام” جلالپور کندووال نہر ” رکھا گیا مگر بھٹو شہید اور کھر کے درمیان لڑائی ہوگئی اور نہرمنصوبہ شروع نہ ہوسکا۔ ایک بات رہ گئی کہ جب جنرل عتیق الرحمٰن نے پی ڈی خان میں آکر نہر کی منظوری کا اعلان کیا تو
یہ تحصیل پنڈدادنخان کا عوامی مطالبہ بن گیا اور تحصیل پی ڈی خان کے ریٹائرڈ پولیس افسران اسے کیش کرنے لگے اسی حوالہ سے سابق ایس پی راجہ سکندر احمد آباد کو ایم پی اے کھڑا کر دیا ہم نے پی پی پی کے مقابلہ میں ان کو ایم پی اے بنوا دیا لیکن یہ نہر کا منصوبہ ان کی یادداشت سے اتر گیا۔ 1976 میں ہماری دوبارہ بھٹو صاحب سے صلح ہو گئی وزیراعظم ہا?س راولپنڈی میں ہماری ان سے ملاقات ہوئی،ڈاکٹر غلام حسین نے کھر صاحب کو چھوڑ کر دوبارہ بھٹو صاحب کی بیعت کر لی،ڈاکٹر صاحب رونے لگے کہ واپس کیسے جاوں گا۔
اس سے پہلے بھٹوصاحب جہلم بلڈنگ ریسٹ ہاو ¿س میں وزیراعلیٰ پنجاب حنیف رامے کے ساتھ آئے تو میں نے ان سے نہر کا مطالبہ کیا تھا جبکہ پنڈدادنخان میں محلہ کوٹ کلاں آئے تو ہم نے نہر دو یا زہر دو کا نعرہ لگایا،اس وقت راجہ فاروق نے بھی ہمارا ساتھ دیا۔ بھٹو صاحب اچھی طرح اس منصوبے کی اہمیت سے واقف تھے انہوں نے پی ٹی وی پر اعلان کردیا کہ غلام حسین اور محمود مرزا جہلمی کی پی پی پی میں واپسی کا انعام جلالپور کندووال نہر کی صورت میں دے رہے ہیں۔ ڈاکٹر غلام حسین کی کاوش کامیاب ہونے والی تھی کہ ضیائصاحب آگئے اور منصوبہ ٹھپ ہو گیا۔اسکے بعد پی پی اور (ن)لیگ کی لڑائی کی وجہ سے اس منصوبہ کا کچھ نہ بن سکا، پھر سا?وال کے جنرل اقبال جب معین قریشی دور میں پنجاب کے گورنر بنے تو انہوں نے مجھے لاہور بلالیا او ر میں نے یونین کونسل دولت پر سمیت 35 واٹرسپلائی سکیمیں منظور کرائیں ساتھ ہی میں نے ان سے درخواست کی کہ تحصیل پنڈدادنخان کی پیاس اور پسماندگی کا واحد حل جلالپور کندووال نہر ہے انہوں نے ایک بار پھر فائل کھلوا دی۔
سوال۔ اس انتہائی اہم منصوبہ کیلئے بعدازاں کسی نے کام نہیں کیا یا منصوبہ کو نظرانداز کردیا گیا؟ جب مشرف کی حکومت آئی تو اسکے ملٹری سیکرٹری جنرل شفقات جو کہ جنرل اقبال (ساؤوال)کے بھانجے تھے نے آواز اٹھائی،جنرل شفقات پرویز مشرف کو پنڈدادنخان لے آئے اور اس سے 1 نہر،نمبر2 چک نظام ٹریفک پل نمبر3 خوشاب للِہ تا جہلم منی موٹروے،نمبر4 سوئی گیس اور نمبر 5 یونیورسٹی کی منظوری لے لی مگر بعد ازاں مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی کی لڑائی نے ایک بار پھر ان منصوبوں کو پس پردہ کردیا حالانکہ یونیورسٹی کا سنگ بنیاد رکھا گیا نہر کا سروے بھی شروع ہو ا۔ 2013 تا 18 کی (ن)لیگی حکومت میں مقامی ایم پی اے نذر حسین گوندل نے میاں شہباز شریف کو باور کرایا کہ اگر یہ نہربن گئی تو مسلم لیگ نون ہمیشہ یہاں سے جیتے گی،یہ بات شہبازشریف کو سمجھ آگئی انہوں نے جلالپورکندووال نہر کے حوالہ سے سب سے مشکل کام یہ کروایا کہ دوسرے صوبوں کو راضی کیا،مشترکہ مفادات کونسل اور قومی اقتصادی کونسل سے اس کی منظوری لے لی اور ایشیائی ترقیاتی بینک سے قرضہ بھی لے لیا،کام کا آغاز ہوگیا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ سروے زمین سب کچھ میاں شہباز شریف کا کمال تھا
سواال۔آجکل جو لوگ اس نہر کے آغاز کا کریڈٹ لینے کی کوشش کررہے ہیں انکا کیا کردار ہے اس منصوبے میں؟ جواب۔ اب ٹھیکہ ہوگیا ہے نہر کی کھدائی کا آغاز بھی ہوگیا ہے الحمداللہ، اب انشااللہ کام میں کوئی رکاوٹ نہیں ہوگی،لیکن یہاں انتہائی اہمیت کی حامل بات کہنے والی یہ ہے کہ اس نہرکے سارے منصوبے اور تحریک میں کسی نو سرباز کا کوئی کردار نہیں ہے اگر ہے تو نوسرباز کا یہ کردار ہے کہ اس نے ڈی سی آفس میں ڈی سی سے نہرسے متعلقہ میٹنگ میں یہ مشورہ ضرور دیا تھا کہ نہر کی زد میں جن کی زمینیں آ رہی ہیں ان زمینداروں کو انکی زمینوں کا معاوضہ دینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ انکی زمینیں بنجر اور تھورزدہ ہیں۔آخر میں مغل برادری اور ضلع جہلم کے معروف سیاسی وسماجی رہنما سابق امیدوار ایم این اے و ٹکٹ ہولڈر تحریک انصاف اور سینئرصحافی مرزاسعید محمود بیگ کا شکریہ ادا کرتے ہوئے اجازت لیتے ہوئے قائرین کی دلچسپی کے لئے دوبارہ آنے کا وعدہ کیا۔