ایران (اصل میڈیا ڈیسک) محکمہ خارجہ نے کہا کہ ایران کے خلاف جلد ہی نئی پابندیاں عاید کی جائیں گی۔ امریکی وزارت کا کہنا ہے کہ عراق سمیت جہاں بھی امریکی مفادات کوخطرہ لاحق ہوا تو امریکا وہاں پر کارروائی کرے گا۔
کل سوموار کے روز ایران کے لیے امریکی ایلچی برائن ہُک نے صحافیوں سے ٹیلیفون پربات چیت کرتے ہوئے کہا کہ کہا کہ اتوار کے روز عراق اور شام میں عراقی حزب اللہ کے خلاف کیے گئے حملوں کا مقصد ایرانی جارحیت کے خلاف امریکا کی دفاعی صلاحیت کو استعمال کرنا تھا۔
انہوں نے عراقی حزب اللہ بریگیڈ پر عراق کی خودمختاری کی خلاف ورزی کا الزام عائد کیا گیا۔
برائن ہک نے کہا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بہت زیادہ صبرو تحمل سے کام لیا۔ ہم اس وقت مشرق وسطیٰ میں جاری تنازعات کے خاتمے کی کوشش کررہے ہیں۔
اُنہوں نے مزید کہ کہ مئی کے بعد سے امریکا نے مشرق وسطی میں اپنی افواج کی تعداد میں 14،000 کا اضافہ کیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سعودی فضائی دفاع کی صلاحیتوں میں اضافہ کیا ہے۔
ادھر مشرقی امور کے لے امریکی معاون وزیر خارجہ ، ڈیوڈ شینکر نے وضاحت کی کہ “اتوار کے روز شام میں بم دھماکے والے اہداف عراق میں ان کے ہم منصبوں سے زیادہ اہم تھے۔”
یہ بات امریکی محکمہ خارجہ کے معاون سیکریٹری ڈیوڈ شینکر نے سوموار کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہی ہے۔ انھوں نے کہا ہے کہ ’’عراق میں کتائب حزب اللہ ملیشیا کے اڈوں پر حملے ایران کے لیے ایک پیغام ہیں۔امریکی صدرڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے کئی ماہ کے ضبط وتحمل کے بعد یہ کارروائی کی ہے۔‘‘
ڈیوڈ شینکر نے بھی یہ کہا ہے کہ یہ فضائی حملے کرکوک میں گذشتہ جمعہ کو کتائب حزب اللہ کے عراقی فوج کے اڈے پر راکٹ حملے میں ایک امریکی شہری کی ہلاکت کے ردعمل میں کیے گئے ہیں۔
انھوں نے کہا:’’ہمارا یہ خیال تھا کہ کسی اہم ہدف کو نشانہ بنایا جائےتاکہ انھیں واضح پیغام دیا جائے کہ ہم امریکی زندگیوں کو کیسے سنجیدہ لیتے ہیں۔یہ ایک ردعمل تھا اور میرے خیال میں یہ کئی طریقوں سے متناسب تھا۔‘‘