راولپنڈی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستانی سول سوسائٹی نے مانسہرہ میں ایک دس سالہ لڑکے کے ساتھ جنسی درندگی کے پیش آنے والے واقعے کی سخت مذمت کی ہے اور حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ایک اعلی سطحی کمیشن بناءے، جو اس طرح کے تمام واقعات کی مکمل چھان بین کرے۔
پاکستانی صوبے خیبر پختونخوا کی پولیس نے قاری شمس الدین نامی ایک مولوی کو اتوار کے روز گرفتار کیا تھا، جس پر الزام ہے کہ اس نے ایک دس سالہ لڑکے کو متعدد بار جنسی ہوس کا نشانہ بنایا۔ شمس الدین پر الزام ہے کہ اس نے اپنے تین ساتھیوں کے ساتھ مل کر ایک کم عمر بچے کو سو سے زائد مرتبہ جنسی تشدد کا نشانہ بنایا، جس سے بچے کی حالت غیر ہوگئی اوراس کی آنکھوں سے خون رسنے لگا۔
کم عمر بچے کی تصویر نے سوشل میڈیا پر طوفان برپا کردیا ہے اور لوگ درندگی کے مرتکب افراد کے لیے سخت سزاؤں کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ حالیہ مہینوں میں جنسی درندگی کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے، جس نے ملک کے کئی حلقوں میں ہلچل مچادی ہے۔ کچھ ہفتے قبل پولیس نے سہیل عزیز نامی ایک ملزم کو گرفتار کیا، جس نے کئی بچوں کے ساتھ مبینہ طور پر جنسی درندگی کر کے ان کی وڈیو بنانے کا اعتراف کیا۔ پولیس کا دعویٰ ہے کہ ملزم اٹلی اور برطانیہ میں بھی اس جرم میں گرفتار ہوچکا ہے۔
ماہرین کا خیال ہے کہ بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے واقعات بڑھتے جا رہے ہیں لیکن ان کی رپورٹنگ کم ہو رہی ہے۔ بچوں کے لیے کام کرنے والی تنظیم چائلڈ رائٹس موومنٹ آف پاکستان کے کوآرڈینٹر ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ دوہزار انیس کے پہلے چھ ماہ میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے تیرہ سو چار واقعات ہوئے ہیں جب کہ دوہزار اٹھارہ کے پہلے چھ مہینوں میں ایسے واقعات کی تعداد تئیس سو بائیس تھی۔ ”لیکن اس کا یہ قطعی مطلب نہیں کہ ایسے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔ پریشان کن امر یہ ہے کہ زیادہ تر تنظیمیں اخبارات میں رپورَٹ ہونے والے واقعات کی بنیاد پر تحقیق کرتی تھیں اور واقعات کی گہرائی تک پہنچتی تھی لیکن اب کئی اخبارات نے اپنے چار صفحات کم کر دیے ہیں، جس کی وجہ سے سماجی خبروں کی شرح، جس میں جنسی تشدد کی خبریں بھی ہوتی ہیں، بہت کم ہوگئی ہیں اور اس وجہ سے یہ لگ رہا ہے کہ ایسے واقعات میں کمی ہوئی ہے۔‘‘
ممتاز گوہر کا کہنا ہے کہ مدرسوں اور مذہبی اداروں میں اس طرح کے واقعات ہو رہے ہیں اور ان پر کام کرنے کی بہت ضرورت ہے لیکن یہ کافی مشکل بھی ہے کیونکہ لوگ اس پر بات کرنے سے ڈرتے ہیں۔ ”اگر آپ کسی مدرسے کے حوالے سے تحقیق کریں گے کہ آیا یہاں ایسا واقعہ ہوا ہے یا نہیں تو مولانا صاحب یہ سمجھے گے کہ ان کی شان میں کوئی گستاخی ہو رہی ہے یا پھر ان کے مطابق دین کے خلاف کوئی کام ہو رہا ہے۔ اس طرح کے واقعات پہلے بھی رونما ہوئے ہیں لیکن بعد میں خاموشی ہوگئی۔ لیکن اب مانسہرہ کے واقعے کے بعد مدرسے میں ہونے والے واقعات پر ایک بہت بڑی بحث چھڑ گئی ہے، جس سے اس مسئلے پر بات کرنے میں آسانی ہوگی۔‘‘
معروف سیاست دان سینیٹر حاصل بزنجو کا خیال ہے کہ حکومت کو فوری طور پر جنسی جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کا رجسٹر بنانا چاہیے۔ ”اگر کسی مولوی کو اس الزام میں کسی مدرسے یا مسجد سے نکالا گیا ہو تو اس کی فوری طور پر رجسٹریشن ہونی چاہیے اور اس کے ڈیٹا کو پورے پاکستان میں شیئر کیا جائے تاکہ وہ کہیں اور جا کر اس طرح کے مکروہ کام نہ کر سکے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ یہ کسی ایک مدرسے کی بات نہیں۔ ”زیادہ تر مدارس میں ایسا ہی ہو رہا ہے لیکن لوگ خوف کی وجہ سے بولتے نہیں ہے۔ چھوٹے سرکاری افسران جیسے کہ ایس ایچ اوز اور تحصیلدار بھی ڈرتے ہیں اور ان کا خدشہ ہوتا ہے کہ مولوی اس کو مذہبی رنگ دے دے گا۔ تو وہ کہتے ہیں کہ وہ اس مسئلے میں کیوں پڑیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں قوانین پر سختی سے عمل کرانا ہوگا ورنہ ہماری آنے والی نسلوں کے لیے تباہی ہے۔‘‘
قصور میں زینیب کے واقعے کے بعد خیال کیا جارہا تھا کہ اس طرح کے واقعات کو روکنے کے لیے حکومت کی طرف سے سنجیدگی دکھائی جائے گی لیکن کئی ناقدین کے خیال میں اس طرح کی سنجیدگی نظر میں نہیں آ رہی ہے۔ نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق کی رکن انیس ہارون کا کہنا ہے قوانین موجود ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہو رہا۔ ”نیشنل کمیشن برائے انسانی حقوق نے دو رپورٹیں اور سفارشات جمع کرائی ہیں۔ ان پر عملدرآمد کرانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست غریب اور اس ظلم کے شکار متاثرین کو انصاف فراہم کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہی۔‘‘
سوشل میڈیا پرکئی گروپس اب اس بات پر اصرار کر رہے ہیں کہ والدین اپنے بچوں کو خود پڑھائیں یا قران کی تعلیم اسکولوں میں دی جائے تاکہ بچوں کو ایسے مدارس میں جانا ہی نا پڑے، جہاں اس طرح کے واقعات ہوتے ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنما ظفر علی شاہ کا کہنا ہے کہ مذہبی طبقے کی اس مسئلے پر خاموشی حیران کن ہے۔ ”یہ مولوی ہر چھوٹے سے چھوٹے مسئلے پر سٹرکیں بند کر دیتے ہیں لیکن اس مسئلے پر خاموش ہیں۔ اگر علماء آگے نہ آئے اور انہوں نے مداخلت کر کے اس کی روک تھام نہیں کی، تو وہ وقت دور نہیں جب لوگ اپنے بچوں کو مدارس میں بھیجنا چھوڑ دیں گے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر مدارس کے لیے ضابطے اخلاق بنا نا چاہیے۔ ”اس کے علاوہ پڑھائی کی جگہ سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہیے اور حکومت کی طرف سے کوئی ادارہ ایسی جگہوں کی مستقل مانیٹرنگ کرے تاکہ ایسے واقعات کا سد باب کیا جا سکے۔ لیکن صرف حکومت اس مسئلے کو حل نہیں کر سکتی۔ مذہبی طبقے کو بھی آنا پڑا گا اور اپنے اندر موجود ایسے افراد کے خلاف حکومت سے تعاون کرنا پڑے گا۔‘‘
ظفر علی شاہ حاصل بزنجو کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں کہ اس مسئلے پر ایک کمیشن بنایا جائے، جو اس کی مکمل چھان بین کرے اور اس کے سدباب کے لیے کام کرے۔