2019… میں سال نو کا آغاز پُر تشدد واقعے سے ہوا تھا جب مانچسٹر کے ایک ریلوے اسٹیشن پر ایک شخص نے چاقو کے وار کرکے کم سے کم تین ا فراد کو زخمی کیا، ملزم نے گرفتاری کے وقت پولیس اہلکاروں سے کہا کہ جب تک تم دوسرے ملکوں پرحملے کرتے رہو گے اس طرح کے واقعات پیش آتے رہیں گے۔حملے کی ذمے داری کسی گروپ نے قبول نہیں کی۔ اسی طرح جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں ایک شخص نے دانستہ طور پر اپنی گاڑی کو سڑک پر سال نو کی خوشی منانے والے مجمع پر چڑھا دی، اس کے نتیجے میں 9 افراد زخمی ہو گئے۔ عرب ممالک میں سال نو کے موقع پر متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امورِ خارجہ انور قرقاش نے کہا تھا کہ 2019ء میں بھی قطر کا بائیکاٹ جاری رکھا جائے گا۔ جو برس کے اختتام تک جاری ہے۔ماہ مئی میں عالم اسلام کے مقدس شہر مکہ مکرمہ میں اسلامی تعاون تنظیم (او آئی سی) کا چودھواں سربراہ اجلاس منعقد ہوا۔سعودی عرب کے فرماں روا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اس مکہ سمٹ کی صدارت کی، اور اس میں ستاون مسلم اکثریتی ممالک کے سربراہان ریاست وحکومت، وزرائے خارجہ اور دوسرے اعلیٰ عہدے دار شریک ہوئے۔ سال کے آخر میں کولاالمپور سمٹ میں شرکت نہیں کی اور اس اجلاس کو او آئی سی کے مقابل و متنازعہ قرار دیا۔سعودی، ایران تنازعہ حل نہیں ہوسکا، جب کہخلیج عمانپر تیل بردارجہازوں اور آرمکو آئل تنصیبات حملے دونوں ممالک کے درمیان خطرناک صورتحال پیدا ہوئی اور دونوں ممالک جنگ کے دہانے پر جا پہنچے۔
افریقی ملک گیبون میں حکومت کے خلاف بغاوت کی کوشش کے الزام میں چار فوجی افسروں کو دارالحکومت لیبر ویل میں سرکاری ریڈیو اسٹیشن کی عمارت سے گرفتار کیا گیا۔گیبون کی حکومت کے ترجمان گائے برٹرینڈ ماپانگو نے بتایا کہ پانچ فوجی افسروں نے بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی تھی اور انھوں نے مختصر وقت کے لیے سرکاری ریڈیو اسٹیشن پر قبضہ کر لیا تھا۔ان میں سے چار کو گرفتار کیاگیا۔گیبون میں فوجی افسروں نے صدر علی بونگو کے خلاف سکیورٹی فورسز کے لیڈر لیفٹیننٹ کیلی اونڈو اوبیانگ ناکام بغاوت برپا کرنے کی کوشش کی تھی۔
افریقی ملک ایتھوپیا میں حکومت نے گذشتہ برس اپریل میں ایتھوپیا میں برسراقتدار آنے والے اصلاح پسند رہ نما ابی احمد نے نہ صرف پڑوسی ملک اریٹیریا کے ساتھ جاری طویل محاذ آرائی کے خاتمے کا اعلان کیا بلکہ دہشت گردی اور غداری کے الزام میں گرفتار 13 ہزار افراد کو عام معافی دی گئی۔ایتھوپیا کی سابقہ حکومت نے 2015کے دوران ملک میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں ے دوران اپوزیشن رہ نماؤں، طلبا، صحافیوں، سماجی کارکنوں دیگر شہریوں سمیت 30 ہزار افراد کو حراست میں لیا تھا۔
الجزائر کی حکمران جماعت نیشنل لبریشن فرنٹ ”ایف ایل این“ کے متعدد ارکان پارلیمنٹ نے ایوان کی رکنیت سے استعفا دے کر حکومت مخالف عوام کے مظاہروں میں شرکت شروع کر دی۔ الجزائر میں عوام صدر افریقی ملک الجزائر بوتفلیقہ کی جانب سے پانچویں بار صدارتی انتخاب لڑنے کے فیصلے کے خلاف کئی ہفتوں سے مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔الجزائر کے صدر عبدالعزیز بوتفلیقہ نے اپنے خلاف جاری احتجاجی تحریک کے بعد 18 اپریل کو ہونے والے صدارتی انتخابات ملتوی کرنے کا اعلان کردیا اور کہا کہ وہ پانچویں مدت صدارت کے لیے بہ طور امیدوار دستبردار ہوگئے ہیں جبکہ وزیراعظم احمد او یحییٰ نے اپنے عہدے سے استعفا دے دیا۔ الجزائرمیں طویل عرصے تک منصب صدارت پر فائزرہنے والے عبدالعزیز بوتفلیقہ بالاآخر اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔لیکن الجزائر سیاسی بحران سے نہیں نکل سکا۔
سوڈان میں گذشتہ ماہ سے جاری حکومت کی جانب سے روٹی کی قیمت میں تین گنا اضافے کے خلاف مظاہروں میں حصہ لینے کے الزام میں 800 سے زیادہ افراد کو گرفتارکیا گیا۔سوڈانی وزیر داخلہ احمد بلال عثمان نے پہلی بار پارلیمان میں بیان دیتے ہوئے ان گرفتاریوں کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ ملک کے مختلف شہروں میں 19 دسمبر کے بعد سے 381 احتجاجی مظاہرے ہوچکے ہیں۔ مظاہروں کے دوران میں 118 عمارتوں کو نذرآتش کیا گیا ہے یا نقصان پہنچایا گیا ہے۔ان میں 18 عمارتیں محکمہ پولیس کی تھیں،مظاہرین نے 194 گاڑیوں کو نذر آتش کیا ہے اور ان میں 15 بین الاقوامی تنظیموں کی تھیں۔ انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹر نیشنل نے ہلاکتوں کی تعداد 37 بتائی ہے۔ احتجاجی مظاہرین نے صدر عمر حسن البشیر سے استعفے کا مطالبہ کیا۔سوڈانی صدر نے استعفے کا مطالبہ کرنے والے مظاہرین سے کہا تھا کہ وہ 2020ء میں ہونے والے صدارتی انتخابات کی تیاری کریں اور انتخاب جیت کر اقتدار میں آئیں۔ سوڈان کے دارالحکومت خرطوم میں صدر عمر حسن البشیر کے ہزاروں حامیوں نے ملک میں جاری حکومت مخالف احتجاجی مظاہروں کے بعد صدر بشیر کے حق میں پہلا عوامی مظاہرہ 10 جنوری کو کیا جبکہ حکومت مخالفین بھی دارالحکومت میں اپنی طاقت کے مظاہرے کئے۔
عالمی سلامتی کونسل میں شامل امریکا، فرانس، برطانیہ اور دیگر ممالک نے سوڈان سے مطالبہ کیا کہ وہ حکومت مخالف مظاہرین کے حقوق کا احترام کرے اور اُن پرتشدد کارروائیوں کی تحقیقات کرے جن کے نتیجے میں درجنوں افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ان ممالک نے مظاہرین کے خلاف تشدد پر سنگین اندیشوں کا اظہار کیا تھا۔سوڈان میں صدر عمر البشیر نے ملک میں ایک سال کے لیے ہنگامی حالت نافذ کرنے کا اعلان کیا، انہوں نے قومی وفاقی حکومت اور ریاستی حکومتوں کو بھی تحلیل کرتے ہوئے ٹکنوکریٹس پر مشتمل کابینہ تشکیل دی۔ لیکن سوڈانی فوج نے صدر عمر حسن البشیر کو عوامی احتجاجی تحریک کے بعد معزول کردیا۔وہ 1989ء میں ایک فوجی بغاوت کے بعد اقتدار میں آئے تھے اور گذشتہ تیس سال سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط سمجھ رہے تھے اور گذشتہ چار ماہ سے دارالحکومت خرطو م،اس کے جڑواں شہر اُم درمان اور دوسرے شہروں میں سراپا احتجاج بنے عوام کی آوازوں پر کان دھرنے کو تیار نہیں ہوئے تھے مگر 11 اپریل کو فوج نے ان کے ساتھ ان کی حکومت اور پارلیمان کو بھی چلتا کردیا۔سوڈان، الجزئر میں سال کے اختتام تک بھی سیاسی بحران عروج پر ہے۔جب کہ طرابلس میں لیبیا کے حملے کے بعد سے سیاسی بحران شدت اختیار کرچکا ہے۔عراق میں عوامی پُر تشدد مظاہروں نے وزیر اعظم کو رخصت کیا۔ نیوزی لینڈ کے شہرکرائیسٹ چرچ شہر میں دو مساجد میں نمازیوں کے وحشیانہ قتل عام کے نتیجے میں 50 سے زائد مسلمانوں کو شہید جب کہ 50 افراد زخمی ہوئے۔ نیوزی لینڈ کے عوام کی جانب سے مسلمانوں کے ساتھ یک جہتی کی مہم کے سلسلے میں ”اتحاد و اتفاق کی خاطر حجاب” کی کال کا بھرپور اور مثبت جواب دیا گیا۔ اس حوالے سے نیوزی لینڈ کی غیر مسلم خواتین کی ایک بڑی تعداد نے جمعے کے روز مسلمان خواتین کی طرح حجاب پہنا۔ اس اقدام کا مقصد کرائسٹ چرچ کی دو مساجد میں ہونے والے قتل و غارت کو مسترد کرنے سے متعلق جذبات کا اظہار تھا۔ اس موقع پر شہداء کی آخری رسومات میں کیوی وزیراعظم جاسنڈا آرڈرن خود بھی سر پر حجاب کے ساتھ نمودار ہوئیں۔
برطانوی وزیراعظم تھریزا مے بریگزٹ معاہدہ نہ ہونے کے سبب مستعفیٰ ہوئی، نئے برطانیہ کے وزیر اعظم بورسن جانسن نے بریگزٹ معاہدہ کرانے کی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام رہے۔ یہاں تک کہ برطانیہ میں دوبارہ انتخابات کرانے پڑے، جس میں انہیں اکثریتی کامیابی ملی۔ برطانوی وزیراعظم کے یورپی یونین کی قیادت سے مذاکرات کا کوئی اچھا اور مفید نتیجہ برآمد نہیں ہوسکا تھا جبکہ بریگزٹ ڈیل کے حامی ان کی حاصل کردہ رعایتوں سے مطمئن نہیں ہوئے تھے۔ تاہم برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کا کہنا ہے کہ جنوری میں بریگزٹ معاہدہ کے سیاسی بحرا ن سے باہر نکل آئے گا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے سربراہ کم جونگ ان کے درمیان لفظی جنگ کے بعد دو بار ملاقاتیں ہوئیں۔۔خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریا کے لیڈر کم جونگ ان کے درمیان پہلی ملاقات گزشتہ برس اس وقت ہوئی تھی جب شمالی کوریا نے اپنے ایٹمی پروگرام سے دست برداری کا اعلان کیا تھا،امریکا و جنوبی کوریا کے تعلقات میں جنگی کشیدگی میں کمی ضرور ہوئی ہے تاہم تعلقات میں کشیدگی رہی۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ملک میں بڑھتے ہوئے بحران اور ڈیموکریٹس کی جانب سے سخت دباؤ کی مزید تاب نہ لا تے ہوئے امریکی تاریخ کے طویل ترین ‘شٹ ڈاؤن’ بھی کیا۔ لیکن اس میں صدر ٹرمپ کی خواہشات کے برعکس امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کے قیام کے لیے 5.7 ارب ڈالر کی رقم مختص نہیں کی گئی۔امریکی حکومت میں یورپی یونین کے امور کا ایک سینئر عہدیدار سمیت کئی امریکی عہدیدار مستعفی ہوئے۔ جب دوسری جانب امریکا اور یورپی ملکوں کے درمیان کشیدگی قائم ہے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری پروگرام پر طے پائے معاہدے سے علاحدگی، شام سے فوج نکالے جانے کے معاملے اور پیرس میں ہونے والے عالمی ماحولیاتی معاہدے سے علاحدگی کے اعلان کے بعد یورپ اور امریکا کے درمیان کشیدگی تاحال جاری ہے۔
وینز ویلا اور امریکا کے درمیان تازہ کشیدگی کے بعد وینز ویلا نے امریکا کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع ہوئے۔امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسرائیل کے زیر قبضہ شام کے علاقے گولان کی چوٹیوں پر صہیونی ریاست کی خودمختاری باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے متعلق حکم پر دست خط کردیے۔اس موقع پر وائٹ ہاؤس میں منعقدہ تقریب میں اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یا ہو اور دوسرے اعلیٰ امریکی اور اسرائیلی عہدے دار بھی موجود تھے۔اقوام متحدہ نے امریکی اقدام کی مخالفت کی۔شام سے امریکی افواج کی واپسی کے امریکی صدر کے اعلان پر امریکی حکام میں اختلافات کھل کر سامنے آئے اور 03جنوری کو امریکی حکام نے کہا کہ ان کے پاس شام سے افواج کے انخلا کا ٹائم فریم نہیں ہے۔امریکا، مشرق وسطی سے نکلنا چاہتا تھا لیکن امریکا نے ترکی کی جانب سے بہار امن چشمہ آپریشن کے بعد دوبارہ اپنی افواج کو شام میں تیل تنصیبات کے قریب تعینات کردیا۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اس توقع کا اظہار کیا کہ شام کے شمال میں ایک سیف زون چند ماہ کے اندر قائم ہو جائے گا۔ایردوآن نے کہا کہ ترکی وہ واحد طاقت ہے جو ایک سیف زون کا قیام عمل میں لا سکتی ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ عالمی برادری کی جانب سے سیف زون کا قیام ممکن نظر نہیں آتا۔ترکی کے صدر نے کہا کہ 1998 میں شام کے ساتھ طے پایا جانے والا معاہدہ ترکی کو اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ وہ خطرات کا سامنا کرنے کی صورت میں شامی اراضی میں داخل ہو جائے۔ترکی نے سیف زون کے لئے سرحدی علاقوں میں علیحدگی پسند کرد ملیشیا کے خلاف حملہ کردیا، بعد ازاں امریکا و روس کی مداخلت کے بعد کرد ملیشیا کو سرحدی علاقے خالی کرنے کی مہلت دی تاہم سال کے آخر تک، ترکی سیف زون بنانے کے لئے کرد ملشیاکے خلاف کاروائی میں مصروف ہے، جب کہ امریکا کے ساتھ تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔2019کا آغاز قیام امن کی کوششوں میں افغان طالبان اور ایران کے درمیان اہم مذاکراتی دور سے ہوا۔ دوحہ مذاکرات ایک موثر سیاسی عمل تھا۔ جو اعصاب شکن کئی ادوار کے بعد امریکی صدر کی جانب سے مردہ ہوئے تاہم قیدیوں کے تبادلوں کے بعد دوبارہ دوحہ مذاکرات شروع ہوئے لیکن افغان طالبان کی جانب سے مسودے پر دستخط سے قبل جنگ بندی نہ کئے جانے اور امریکی بیس کیمپ کو نشانہ بنانے کے بعد مذاکرات دوبارہ منسوخ ہوگئے۔افغان صدارتی انتخابات کے نتائج کو کئی بار ملتوی کیا گیا اور بالاآخر افغان صدارتی انتخابات کے ابتدائی نتائج کا اعلان ہوا۔لیکن ان نتائج کو تمام صدارتی امیدواروں نے مسترد کردیا۔
ضلع پلوامہ کے علاقے اونتی پورہ میں مرکزی شاہراہ پر پولیس فورس کے 70 سے زیادہ گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلے کو بم حملے میں نشانہ بنایا گیا اور ایک مقامی خودکش بمبار نے اپنی بارود سے بھری کار کو سری نگر سے 20 کلومیٹر دور قافلے میں شامل ایک بس کے ساتھ ٹکرا کر دھماکے سے اڑادیا۔اس میں 350 کلو گرام بارود لدا ہوا تھا۔ بھارت میں سال کے آغاز میں ریاست کیرالا میں اس وقت ہنگامہ آرائی اور تشدد کے واقعات رونما ہوئے جب دو خواتین رسم ورواج کی خلاف ورزی اور تمام رکاوٹوں عبور کرتے ہوئے ایک مقدس مندر میں داخل ہو گئیں۔ بھارت میں ہندو توا کے تسلسل میں مذہبی انتہا پسندی کے واقعات 2019 میں تمام برس جاری رہے، یہاں تک کہ سال کے اختتام تک بھی ہندوانتہا پرست پالیسیوں کی وجہ سے بھارت کی کئی ریاستوں میں پرتشدد واقعات و احتجاج جاری ہے۔نریندر مودی ہند و انتہا پسند نظریات کے ساتھ دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ سیاسی درجہ حرات میں اضافے کے لئے ہندو شدت پسندی و پاکستان مخالف اقدامات سے کشیدگی کو بُری طریقے سے بڑھایا۔ پہلے ایجنڈے کے طور پر مقبوضہ کشمیر کی آئینی حیثیت ختم کی۔ مقبوضہ کشمیر میں گزشتہ کئی ماہ سے انسانی حقوق کی خلاف ورزی جا رہی ہے۔ بھارت نے پاکستان کی حدود میں جارحیت کی کوشش کی تھی جس پر پاک فضائیہ نے بھرپور جواب دیا۔ جس میں دو طیارے گرادیئے گئے تو ایک کمانڈر کو گرفتار اور پھر جزبہ خیر سگالی کے تحت رہا بھی کردیا۔ کرتار پور راہدری میں سکھ کیمونٹی کے مقدس مقام کو تزہین آرائش کے بعد بابا گورنانک کے 550ویں کے یوم پیدائش پر کھول دیا گیا۔تاہم بھارت کی جانب سے نیشنل رجسٹریشن پالیسی کی آڑ میں لاکھوں مسلمانوں کو ملک بدر و مسلم کشی کا منصوبہ بھی منظور کیا جس کے خلاف سال کے آخر تک احتجاج جاری ہے۔
روسی صدر ولادی میر پوتین نے امریکا کے ساتھ سرد جنگ کے زمانے کا ہتھیاروں کی دوڑ پر پابندی کا معاہدہ باضابطہ طور پر معطل کر دیا۔امریکا اور روس نے ایک دوسرے پر 1987ء میں طے شدہ درمیانے فاصلے تک مار کرنے والے جوہری ہتھیاروں پر پابندی کے معاہدے (آئی این ایف) کی خلاف ورزیوں کا الزام عاید کیا۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فروری میں اس جوہری معاہدے سے دستبردار ہونے کے اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ واشنگٹن اس معاہدے سے چھے ماہ کے اندر انخلا کے لیے عمل شروع کرے گا۔تاہم روس نے خبردار کیا تھا کہ امریکا کا سرد جنگ کے زمانے میں طے شدہ جوہری ہتھیاروں کے معاہدے سے انخلا ایک خطرناک اقدام ہو گا۔واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان بڑھتی ہوئی تجارتی جنگ کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ جی – 20 سربراہ اجلاس کے ضمن میں تجارتی اختلافات پر بات ”تعمیری” ان کے نزدیک مفید رہے گی۔ واشنگٹن اور بیجنگ ایک سمجھوتے کا فارمولا ترتیب س کے ذریعے 300 ارب ڈالر مالیت کی چینی درآمدات پر کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کے آئندہ مرحلے سے اجتناب کیا جا سکے گا۔جس پر امریکا اور چین نے عمل درآمد تو کرلیا ہے تاہم دونوں ممالک کے درمیان ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کے علاوہ تجارتی جنگ میں شدت ختم ہونے کا امکان نہیں ہے۔
2019میں دنیا سیاسی بحرانوں میں بُری طرح الجھی رہی اور سیاسی بحران کی وجہ سے عالمی طاقتیں جنگ کے دہانے پر پہنچ کر واپس آئی ہیں۔2019میں ایسا قابل ذکر کوئی واقعہ رونما ہوا جس میں متاثرہ ممالک کے سیاسی یا خانہ جنگی کے بحران حل ہوئے ہوں، جب کہ دہشت گردی اپنے مختلف روپ میں دنیا کے کئی ممالک کو متاثر کرتی نظر آئی۔ عالمی سیاسی منظر نامے پر گہری نظر ڈالنے سے یہ اندازہ با آسانی لگایا جاسکتا ہے کہ 2019کا سال 2020میں کئی اہم چینلجز ورثے میں دے کر جارہا ہے۔ شام، عراق، ایران،سعودی عرب، لیبیا، یمن، مقبوضہ کشمیر، افغانستان، افریقی ممالک سمیت کئی یورپی ممالک و امریکا میں انتہا پسندی و سیاسی بحران اپنے عروج پر ہے۔ اقوام متحدہ دنیا میں امن کے لئے مستحکم پالیسیوں پر عمل درآمد کرانے میں ناکام رہی، اقوام متحدہ کا زیادہ زور صرف مذمت یا رسمی بیانات تک محدود رہا عملی طور پر اقوام عالم کا ادارہ غیر فعال نظر آیا۔ جس سے جی فائیو سمیت اقوام عالم میں بے چینی اور اضطراب میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔2020 میں دیرینہ حل طلب مسائل کو حل کرنے کے لئے غیر جانب دارانہ و انسان دوست پالیسی اپنانا ہوگی۔ 2019سیاسی بحرانوں و احتجاج، مہنگائی و عوام کی بے چینی کا سال رہا، جہاں دنیا کے کئی اہم ممالک میں عوام مسلسل احتجاج کرتی نظر آئی اور اپنی حکومتوں کے خلاف پر تشدد احتجاجوں نے عالمی سکون کو ناپید کیا۔