ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب بے قابو ہوتے تشدد کے پھیلنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ ٹرمپ ایران اور خطے میں جمہوری قوتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ خطے میں جمہوری قوتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔
ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب بے قابو ہوتے تشدد کے پھیلنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ ٹرمپ ایران اور خطے میں جمہوری قوتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے رائنر زولش کا لکھا تبصرہ:
امریکا کے حیرت انگیز حملے میں ایران کے چوٹی کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد کشیدگی اور بحران میں اضافے کے ہر طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔ حالات انتہائی خطرناک ہیں۔ تہران حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بدلہ لینے کے عزم کا پر زور اظہار سامنے آ چکا ہے۔ تشدد کی آگ بھڑکنے کا خوف صورتحال کے جلد قابو سے باہر ہو جانے کے امکانات کی نشاندہی کر رہا ہے، کیونکہ تہران سلیمانی کے قتل کو تضحیک اور حقیقی اعلان جنگ سے تعبیر کر سکتا ہے۔ ایران اس امریکی کارروائی کا جواب نہ دے کر خاموش بیٹھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، اپنی داخلی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بھی۔
ایران خود بھی عسکری طور پر متحرک ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری بھی نہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں سلیمانی کی قیادت میں انتہائی مؤثر فوجی اور خفیہ سرگرمیاں عمل میں آئیں جن کی وجہ اس خطے میں ایران کا وسیع اور عمدہ فوجی نیٹ ورک ہے۔ ساتھ ہی عراق اور شام میں ایران نواز ملیشیا سے لے کر لبنانی حزب اللہ تک اور یمن میں حوثی باغی، جو طویل عرصے سے ایران کے حریف سعودی عرب کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی میں بھی شامل ہیں اور اسرائیل اور امریکا کا اعلانیہ دشمن بھی ہیں۔
سلیمانی کے قتل سے گرچہ خطے میں ایران کی طاقت اور توسیع کی پالیسی کے’آپریشنل ہیڈ‘ یا عملی سربراہ کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے اور غیر جانبدارانہ طور پر اس وقت اس حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ تہران حکومت بیرون ملک اپنے سب سے اہم جنرل کو اس طرح کے کسی حملے سے بچانے میں ناکام رہی۔ لیکن مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں کوئی بھی ایسا نہیں، جس کا کوئی متبادل نہ ہو۔ یہاں تک کہ قاسم سلیمانی کا بھی جو نہ صرف بدنام زمانہ القدس بریگیڈ کے سربراہ کی حیثیت سے بلکہ اس نیٹ ورک کو جو انہوں نے خطے میں ایران کی وفادار ملیشیاؤں کے ذریعے بنایا تھا، اس کا بھی مرکزی کردار تھے۔ یہ نیٹ ورک سلیمانی کے بغیر بھی اتنا ہی مؤثراور خطرناک رہے گا۔ مارے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی کے جانشین کا پہلے ہی اعلان ہو چکا ہے۔
سلیمانی بلاشبہ عراق اور شام میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف جنگ میں فوجی قابلیت اور مہارت رکھتے تھے۔ لیکن وہ ایک ایسی حکومت کے دست راست تھے، جو دہشت گردی اور انتہائی ظلم کی حمایت کرتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے خاص طور پر افسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ پھر بھی ان کا قتل سیاسی طور پر ایک غلطی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر اور امریکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے نہ صرف ایک ایسے پورے خطے کو جنگ کے خطرے میں ڈال رہے ہیں جہاں سے درحقیقت واشنگٹن کی فوجی موجودگی ختم کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے اس اقدام سے خطے میں امریکا دشمن اور مغرب مخالف یکجہتی کے اثرات کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھے گا۔ اس سے اب عراق، لبنان اور ایران میں جمہوری احتجاجی تحریکوں کو بھی نقصان پہنچے گا، کیونکہ یہ تمام تحریکیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر تہران حکومت کے خلاف تھیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے، تو ٹرمپ براہ راست تہران کے مفادات کی خدمت کا سبب بنیں گے۔
ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں جنگ کا خطرہ مول لیا: تبصرہ
Posted on January 4, 2020 By Majid Khan اہم ترین, بین الاقوامی خبریں
Shortlink:
Sollich Rainer
ایران (اصل میڈیا ڈیسک) ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب بے قابو ہوتے تشدد کے پھیلنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ ٹرمپ ایران اور خطے میں جمہوری قوتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ ایرانی جنرل سلیمانی کے قتل کے ساتھ امریکی صدر ٹرمپ خطے میں جمہوری قوتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔
ایرانی جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو اب بے قابو ہوتے تشدد کے پھیلنے کے خطرات کا سامنا ہے۔ ٹرمپ ایران اور خطے میں جمہوری قوتوں کو کمزور کر رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیو کے رائنر زولش کا لکھا تبصرہ:
امریکا کے حیرت انگیز حملے میں ایران کے چوٹی کے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد کشیدگی اور بحران میں اضافے کے ہر طرح کے اشارے مل رہے ہیں۔ حالات انتہائی خطرناک ہیں۔ تہران حکومت اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بدلہ لینے کے عزم کا پر زور اظہار سامنے آ چکا ہے۔ تشدد کی آگ بھڑکنے کا خوف صورتحال کے جلد قابو سے باہر ہو جانے کے امکانات کی نشاندہی کر رہا ہے، کیونکہ تہران سلیمانی کے قتل کو تضحیک اور حقیقی اعلان جنگ سے تعبیر کر سکتا ہے۔ ایران اس امریکی کارروائی کا جواب نہ دے کر خاموش بیٹھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا، اپنی داخلی سیاسی صورتحال کے تناظر میں بھی۔
ایران خود بھی عسکری طور پر متحرک ہو سکتا ہے لیکن یہ ضروری بھی نہیں کیونکہ حالیہ برسوں میں سلیمانی کی قیادت میں انتہائی مؤثر فوجی اور خفیہ سرگرمیاں عمل میں آئیں جن کی وجہ اس خطے میں ایران کا وسیع اور عمدہ فوجی نیٹ ورک ہے۔ ساتھ ہی عراق اور شام میں ایران نواز ملیشیا سے لے کر لبنانی حزب اللہ تک اور یمن میں حوثی باغی، جو طویل عرصے سے ایران کے حریف سعودی عرب کے ساتھ براہ راست محاذ آرائی میں بھی شامل ہیں اور اسرائیل اور امریکا کا اعلانیہ دشمن بھی ہیں۔
سلیمانی کے قتل سے گرچہ خطے میں ایران کی طاقت اور توسیع کی پالیسی کے’آپریشنل ہیڈ‘ یا عملی سربراہ کو راستے سے ہٹا دیا گیا ہے اور غیر جانبدارانہ طور پر اس وقت اس حیرت کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ تہران حکومت بیرون ملک اپنے سب سے اہم جنرل کو اس طرح کے کسی حملے سے بچانے میں ناکام رہی۔ لیکن مشرق وسطیٰ اور وسطی ایشیا میں کوئی بھی ایسا نہیں، جس کا کوئی متبادل نہ ہو۔ یہاں تک کہ قاسم سلیمانی کا بھی جو نہ صرف بدنام زمانہ القدس بریگیڈ کے سربراہ کی حیثیت سے بلکہ اس نیٹ ورک کو جو انہوں نے خطے میں ایران کی وفادار ملیشیاؤں کے ذریعے بنایا تھا، اس کا بھی مرکزی کردار تھے۔ یہ نیٹ ورک سلیمانی کے بغیر بھی اتنا ہی مؤثراور خطرناک رہے گا۔ مارے جانے والے جنرل قاسم سلیمانی کے جانشین کا پہلے ہی اعلان ہو چکا ہے۔
سلیمانی بلاشبہ عراق اور شام میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے خلاف جنگ میں فوجی قابلیت اور مہارت رکھتے تھے۔ لیکن وہ ایک ایسی حکومت کے دست راست تھے، جو دہشت گردی اور انتہائی ظلم کی حمایت کرتی ہے۔ ایسے شخص کے لیے خاص طور پر افسوس کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ پھر بھی ان کا قتل سیاسی طور پر ایک غلطی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ امریکی صدر اور امریکی مسلح افواج کے کمانڈر انچیف کی حیثیت سے نہ صرف ایک ایسے پورے خطے کو جنگ کے خطرے میں ڈال رہے ہیں جہاں سے درحقیقت واشنگٹن کی فوجی موجودگی ختم کرنا چاہتے ہیں، بلکہ ان کے اس اقدام سے خطے میں امریکا دشمن اور مغرب مخالف یکجہتی کے اثرات کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھے گا۔ اس سے اب عراق، لبنان اور ایران میں جمہوری احتجاجی تحریکوں کو بھی نقصان پہنچے گا، کیونکہ یہ تمام تحریکیں براہ راست یا بالواسطہ طور پر تہران حکومت کے خلاف تھیں۔ اگر حالات ایسے ہی رہے، تو ٹرمپ براہ راست تہران کے مفادات کی خدمت کا سبب بنیں گے۔
by Majid Khan
Nasir Mehmood - Chief Editor at GeoURDU.com