نیویارک (اصل میڈیا ڈیسک) عراق کے دارالحکومت بغداد میں امریکی حملے کے نتیجے میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد مبصرین نے کہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی میں اضافے اور ایران اور امریکا کے درمیان ممکنہ جنگ کے اثرات نمودار ہونے لگے ہیں۔
عالمی امور کے ماہرین نے مشرق وسطیٰ کے خطے کی نازک صورتحال کے تناظر میں دنیا پر تیسری عالمی جنگ کے سیاہ بادل منڈلانے کا اشارہ ظاہر کیا ہے۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر خوب بحث کی جا رہی ہے اور آرا ظاہر کی جا رہی ہیں کہ اس امریکی اقدام کے بعد مشرق وسطیٰ میں ممکنہ جنگ کے خدشات بڑھ جائیں گے اور یہ کشیدگی تیسری عالمی جنگ کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوسکتی ہے۔
فرانسیسی میڈیا نے روس کے کردار پر بات کرتے ہوئے کہا کہ حالیہ سالوں میں روس کا خطے میں کردار بڑھا ہے، خصوصاً شام میں روس نے اپنے اتحادی ایران کیساتھ ملکر امریکی مفادات کو کافی زد پہنچائی، آنیوالے وقت میں روس کا کردار اہم ہو جائے گا، تیسری عالمی جنگ کا خدشہ روس کی طاقت کیساتھ ساتھ بڑھا ہے۔
ادھر امریکی میڈیا کے مطابق واقعے کے بعد عالمی مبصرین نے اپنے ردعمل میں کہا کہ اس وقت پوری دنیا کی توجہ عراق پر مرکوز ہے اور سب یہ جاننے کے لیے بے چین ہیں کہ جس ملک کی سر زمین پر یہ حملہ ہوا ہے اس کا آنیوالے دنوں میں ردعمل کیا ہو گا، اگر عراق نے ایرانی انتظامیہ کو کھلا گراؤنڈ مہیا کیا تو ایران بھر پور کارروائی کی پوزیشن میں ہوگا۔
ساتھ ہی ماہرین کی جانب سے اس خدشے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے کہ اگر امریکا کے یورپی اتحادیوں نے امریکا کی اس کارروائی کی مخالفت کی اور ایران کیساتھ جوہری معاہدے پر کاربند رہے تو امریکا کیلئے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔
مشرق وسطیٰ پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اور مصنف ولی نصر کے مطابق جنرل سلیمانی خطے میں کافی مقبول تھے اور ان کی ہلاکت کے بعد ایران پر جوابی کارروائی کرنے کے لیے کافی دباؤ ہوگا۔ کتاب دی شیڈو وار کے مصنف اور کالم نگار جیمز شیوٹو کا کہنا تھا کہ اگر امریکا اور ایران حالیہ کشیدگی کے باعث آمنے سامنے آتے ہیں تو یہ جنگ امریکا کے لیے کسی بھی دوسری جنگ سے مختلف ہو گی، ایران اور اسکے حمایت یافتہ گروہ امریکی تنصیبات، سکیورٹی دستوں، پائپ لائنز پر حملوں سمیت سائبر وار کی صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔