انسداد منشیات مہم کی کامیابی کے لئے سید ذوالفقار حسین کی تجویز

Drugs

Drugs

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ

تعلیمی اداروں میں منشیات کا رجحان بڑھتا جارہا ہے جو شائد وفاقی حکومت کے لیے نئی بات ہے لیکن معاشرہ کے لیے نئی نہیں۔ اب اگر حکومت کی جانب سے خود اس کا انکشاف کیا گیا ہے تو یقینی اس تدارک کے لیے حکومت کچھ نہ کچھ ضرور کر رہی ہو گی لیکن حیران کن بات تو یہ ہے کہ صاحبانِ اقتدارکو اب پتہ چلا ہے، جبکہ نوجوان نسل میں منشات کا رحجان اب سے نہیں بلکہ ایک سروے رپورٹ اور مشاہدہ کے مطابق منشیات کارجحان گزشتہ پانچ سال سے بہت زیادہ ہو چکا ہے۔

دوسری جانب سالانہ رپورٹ2019پیش کرتے ہوئے کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم سید ذوالفقار حسین نے کہا کہ 2019 میں بھی مجموعی طور پر منشیات کے استعمال خصوصا تعلیمی اداروں کے طلبہ اور نوجوانوں میں منشیات کے بدلتے ہوئے رحجانات میں اضافہ،منشیات کی فروخت، فٹ پاتھوں پارکوں اور باغوں میں کھلے عام نشہ کا استعمال، علاج معالجہ کی سرکاری سطح پر سہولتیوں میں کسی قسم کی کوئی بہتری دیکھنے میں نہیں آئی سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے احکامات کی روشنی میں منشیات کے خلاف حکومتی اداروں نے کام کا آغاز کیا۔جس میں بہت سے نئے پروگرامواں کا آغاز کیا۔یہ بات انہو ں نے نوجوانوں میں منشیات کے بدلتے ہوئے رحجانات میں اضافہ اور 2019 کے دوران منشیات کے استعمال کے متعلق مجموعی صورت حال پر ڈرگ ایڈوائزری ٹریننگ حب میں آئی ایس ایس یو پی پاکستان چیبٹر اور کولمبو پلان کے تعاون سے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہی اس موقع پر سیکالوجیسٹ صائمہ شہزاد ایم اینڈ ای آفیسر ڈاکٹر اکرام انچارج سکول پروگرام محسن ذوالفقار او ر ڈائریکٹر کواڈینشن عدیل راشد کے علاوہ تعلیمی اداروں کے فوکل پرسن بھی موجود تھے۔

کنسلٹنٹ انسداد منشیات مہم سید ذوالفقار حسین نے سالانہ رپورٹ 2019 پر مذید روشنی ڈالتے ہوئے کہاکہ یونیورسٹیوں کالجوں اور سکولوں میں سافٹ اور ہارڈ منشیات کے رحجانات میں اضافہ والدین اور اساتذہ کے لئے بٹرا چیلنج ہے بڑے گھرانوں کی نوجوان لٹر کے اور لٹرکیاں اپنے دوستوں کی وجہ سے شروع میں فیشن کے طور پر منشیات کا آغاز کرتے ہیں جو بعد میں مستقل منشیات کے عادی ہو جاتے ہیں 2019 کے دوران اپر کلاس کے نوجوانوں میں زیادہ کرسٹل آئس،کوکین، ہیروئن،ایل ایس ڈی اور ایسٹسی ٹیبلٹ جبکہ مڈل اور متوسط طبقہ سے وابستہ افراد میں گٹکا،شراب،چرس، بھنگ،افیون، نسواراور سکون آوار گولیاں اور مختلف انجیکشن کا استعمال زیادہ رہا۔ لاہور کے سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں منشیات کے خلاف نامزد فوکل پرسن کی مدد سے2019 میں 10 ہزار سے زائد طلبہ اور اساتذہ کو منشیات کے خلاف آگاہی پروگرامز اور تربیتی ورکشاپوں کے ذریعے شعور دیاگیا جس کے لئے ہم سکول ایجوکیشن پی ایچ ای سی اور ڈائریکٹر کالجزز لاہور ڈویزن ڈپٹی کمشنر آفس اور کولمبو پلان کے شکر گذار ہیں جن کی مدد سے پروگراموں کا انعقاد کیا۔

انہوں نے کہاکہ لاہور سمیت پنجاب کے مختلف شہروں کے تعلیمی اداروں کے طالب علموں میں نشہ کے بٹرھتے ہوئے رحجان میں اضافہ سب کے لئے پریشانی ہے۔ کوئی بھی والدین یہ نہیں چاہئیں گے کہ ان کا بچہ نشہ کرے کیونکہ منشیات کے استعمال سے براہ راست خاندان پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ 2019تک 15 تعلیمی اداروں کو سموک اینڈ ڈرگ فری کیمپس کا درجہ دیا گیا ہے یونیورسٹیوں اور دیگر تعلیمی اداروں کے ماحول کو بہتر اور ٹھیک کرنے میں اداروں کے سربراہوں کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ وہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا بھی اہتمام کریں اور پروگرامز شروع کئے ہیں جن کو اب ختم کرنا مشکل ہو گا۔ تعلیمی اداروں اور ان کے ہاسٹلوں میں منشیات کا استعمال یقینا ہے اور تعلیمی اداروں کے سربراہ بخوبی آگاہ ہیں۔

حقیقت میں جہاں تک بات ہے تعلیمی اداروں میں نشہ آور اشیاء کے استعمال کی تو یہ کوئی نئی بات نہیں۔گزشتہ کئی دہاہوں سے تعلیمی اداروں میں نشہ اور اشیاء کا استعمال کیا جا رہا ہے،ہاں البتہ لمحہ فکریہ یہ ہے کہ اس رجحان میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے اور پاکستان کا شمار اب ان ممالک میں ہونے لگا ہے جہاں منشیات کا استعمال خطرناک حد تک ہونے لگا ہے۔ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت کو فوری طورپر انسدادمنشیات قوانین پر عمل درآمد کروانا ہوگاتاکہ نئی نسل کو نشے کی لعنت سے بچایا جا سکے۔

Ghulam Murtaza Bajwa

Ghulam Murtaza Bajwa

تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ