وزیراعلی پنجاب نے چکوال میں یونیورسٹی کے قیام کی منظوری دے دی تھی، یونیورسٹی کا نام یونیورسٹی آف نارتھ پنجاب رکھا گیا،جس کا بل پنجاب اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے۔اس عظیم کارنامے کا سہرا صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن و انفارمیشن ٹیکنالوجی راجہ یاسر ہمایوں سرفراز اور ان کی ٹیم (محکمہ ہائر ایجوکیشن پنجاب کے افسران اور سٹا ف) کو جاتا ہے یونیورسٹی آف نارتھ پنجاب کے قیام سے چکوال اور ملحقہ علاقوں کے طلبا و طالبات کو اعلیٰ تعلیم کی سہولت ملے گی۔وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے مطابق سوشل سیکٹر پر زیادہ توجہ دی جا رہی ہے۔
چکوال گورنمنٹ کالج کی شناخت اور اس میں تعلیم حاصل کرنے والے بچوں کی فیسوں کو نہ بڑھنے سے روکنے کے لئے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے تفصیل کے ساتھ اراکین اسمبلی کو آگا ہ کیا ان کے اس جواب سے نہ صرف اسپیکر پنجاب اسمبلی بلکہ اپوزیشن اور حکومت کے تمام اراکین نے اتفاق کیااور لہٰذا یونیورسٹی آف کا چکوال کا بل اتفاق رائے سے منظور ہوا۔بہت جلد ایک نیا بل لایا جائے گا جس سے گزشتہ 20سالوں میں پیداہونے والے مسائل بھی حل ہوں گے۔یہ تجویر پیش کرنے کا سہرا پنجاب کے محکمہ ہائیرایجوکیشن کو جاتا ہے جس کے تحت نہ صر ف گورنمنٹ کالج چکوال بلکہ سابقہ حکومتوں میں بننے والے تمام کالجز میں زیر تعلیم طلباء وطالبات کی فیس سرکاری سطح پر آجائے گی۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ صوبائی وزیر ہائر ایجوکیشن و انفارمیشن ٹیکنالوجی راجہ یاسر ہمایوں سرفراز نے اپنے بزرگوں کے نقشہ قدم پر چلتے ہوئے یونیورسٹی آف چکوال کا بل پاس کرواکرچکوال کی نئی تاریخ رقم کردی ہے جو نئی نسل کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے۔تاریخی حوالے سے بات کی جائے تو 1940 کے ضلع جہلم کے گزٹ کے مطابق چکوال کا نام چوہدری چاکو خان جو کہ میر منہاس راجپوت قبیلے کے سردار تھے کے نام پر رکھا گیا۔ چکوال اچھی نسل کے بیل اور گھوڑوں کی وجہ سے مشہور ہے۔
پاکستان فوج میں کافی تعداد میں فوجی چکوال سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسرا ہندوستانی صوبیدار خداداد خان جسیوکٹوریہ کراس ملا، محمد اکبر خان جو پہلے ہندوستانی تھے جن کہ برطانوی فوج میں جنرل بنے اور عزیم جنرل افتخار خان کا چکوال سے تھا۔ آزادی کے بعد چکوال سے بہت سی مشہور شخصیات جیسا کہ جنرل عبدلماجد ملک، جنرل عبدالقیوم، میجر جنرل فاروق ملک، آئی جی پنجاب پولیس عطا حسین، میجر جنرل مظفر، محمد منیر اور سیاستدان جیسا کہ سردار محمد اشرف خان، سردار خضر حیار خان، سردار غلام عباس اور میجر(ر) طاہر اقبال شامل ہیں۔ ضلع چکوال میں اعوان نسل کے لوگ بہت بڑی تعداد میں آباد ہیں۔خصوصاً علاقہ ونہار میں زیادہ ترآبادی اعوان نسل پر مشتمل ہے۔
ضلع چکوال کی تاریخ تاریخی اہمیت۔ ضلع چکوال پنجاب کا اہم ترین ضلع ہے اور چار تحصیلوں چکوال کلر کہار چوآسیدن شاہ اور تلہ گنگ اور 68یونین کونسلوں پر مشتمل ہے۔چکوال میں قومی اسمبلی کے دو این اے 60’این اے 61اور صوبائی اسمبلی کے چار پی پی 20’پی پی 21پی پی 22اور پی پی 23 کے حلقے آتے ہیں۔چکوال کو1985ء میں ضلع کا درجہ دیا گیا اس سے قبل یہ ضلع جہلم کی تحصیل ہوا کرتا تھا۔تلہ گنگ ضلع چکوال کی ایک انتہائی اہم تحصیل ہے۔
اس کے نام کے ساتھ دو الفاظ تلہ اور گنگ بھی ایک تاریخ رکھتے ہیں۔تلہ کا مطلب ہے نچلے حصے والی زمین اور گنگ ہندوؤں کی ایک قوم کا نام ہے۔قیام پاکستان سے قبل یہاں پر گنگ قوم آباد تھی اور یہ علاقہ چونکہ باقی علاقے سے نچلی سطح پر واقع تھا اس لیے یہاں پر آباد گنگ قوم کے افراد کو تلہ گنگ کے باعث شناخت کیا جاتا تھا۔تحصیل تلہ گنگ ملک کی سب سے بڑی شاہرہ موٹروے سے 30کلو میٹر دور واقع ہے جبکہ ضلع چکوال سے 45کلو میٹر دور واقع ہے۔ یہاں پر آباد لوگ پنجابی زبان بولتے ہیں۔تحصیل تلہ گنگ میں ایشیاء کا سب سے بڑا قصبہ لاوہ بھی موجود ہے۔جس کے رقبے پر پوری تحصیل کی آباد ی کی اکثریت آباد ہے۔
چکوال کا علاقہ محل وقوع کے اعتبار سے شمالی حصے کی طرف سے ضلع راولپنڈی،جنوبی سطح پر ضلع جہلم،مشرقی اعتبار سے خوشاب اورمغربی سرحد میانوالی سے ملتا ہے۔کل رقبہ 6609کلومیٹر اور1652443ایکٹر تک پھیلا ہوا ہے۔جنوبی حصے میں زیادہ تر پہاڑی سلسلہ واقع ہے اور سطح سمندر سے 3701فٹ کی بلندی پر ہے جبکہ شمال میں زیادہ حصہ دریا سوہان کے قریب واقع ہے۔چکوال میں پہاڑی سلسلہ ساتھ ساتھ ایک بارانی علاقہ ہے اس لیے یہاں پر کاشتکاری میں بارش کا بہت زیادہ عمل دخل ہے۔
زیادہ تر لوگ دیہی علاقے میں آباد ہیں۔چکوال ایک تاریخی علاقہ ہے اور پاکستان کے قیام سے قبل یہاں پر ہندو’سکھ اور عیسائی قومیں آباد تھیں جن میں اکثریت ہندوؤں اور سکھوں کی تھی۔1947میں پاکستان کے قیام کے بعد یہ قومیں بھارت کو ہجرت کرگئیں جبکہ بھارت سے آنے والے مسلمان یہاں پر آباد ہوئے۔1947ء سے قبل انگریزوں کے دور حکومت میں چکوال ضلع جہلم کی تحصیل ہوتی تھی۔ 1985 میں اس کو ضلع کا درجہ دے دیا گیا۔1891میں اعدادو شمار کے مطابق اس کی آبادی کی کل تعداد 164912تھی۔تحصیل چوآ سیدان شاہ کے کہار روڈ کے قریب 3000قبل کاتیس راج ہوا کرتا تھا جس کے چند ایک آثار آج بھی پائے جاتے ہیں۔ ہندوراج کے علاوہ وہاں سے 3کلو میٹر دور دھمیال بھی واقع ہے جو 1920میں بھی تمام افراد کے لیے اس حوالے سے ایک اہم جگہ تھی کہ یہاں پر تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد کو روز گار کی تلاش کیلئے آنا پڑتا تھا اور انگریز فوج کا قیام بھی یہیں پر تھا۔