اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) مشرق وسطٰی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی کے پیش نظر پاکستان کی فوج نے اس بات کا اشارہ دیا ہے کہ اس کا ملک نہ ہی کسی تنازعے کا حصہ بنے گا اور نہ ہی اپنی زمین کسی کے بھی خلاف استعمال ہونے دے گا اور امن کی کوششوں کی حمایت کرے گا۔
ایران کا دعوٰی ہے کہ ماضی میں جند اللہ اور جیش العدل نامی دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان کی سرحد سے آکر ایرانی سپاہیوں اور تنصیبات پر حملے کیے۔ لیکن پاکستان نے حال ہی میں یہ کوشش کی کہ وہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان صلح صفائی کرائے۔ تاہم وہ کامیاب نہ ہوسکا۔
کئ ماہرین کے خیال میں پاکستان کی فوج کی طرف سے یہ اعلان غیرجانبداری ہے۔ واضح رہے کہ ماضی میں پاکستانی حکومتوں نے خطے اور دنیا میں ہونے والے کئے تنازعات میں جانبدار پوزیشن اختیار کی تھی۔ آزادی کے کچھ برسوں بعد ملک سرد جنگ میں امریکا کا قریبی اتحادی بنا اور بعد کے عشروں میں اشتراکیت کے خلاف بننے والے مغربی دفاعی اتحادوں کا بھی حصہ بنا۔ سوویت فوج کے حملے کے بعد پاکستان نے امریکا، سعودی عرب اور کئی مغربی و مسلم ممالک کے ساتھ مل کر افغان مجاہدین کی مدد کی۔ گو کہ افغان طالبان پاکستان کے قریبی اتحادی تھے لیکن پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ تاہم اب اسلام آباد کا کہنا ہے کہ وہ کسی بھی جنگ کا حصہ بننا نہیں چاہتا۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل امجد شعیب کے خیال میں پاکستان اب عزم مصمم رکھتا ہے کہ وہ کسی جنگ کا حصہ نہیں بنے گا۔ “ہم نے دہشت گردی کی جنگ میں امریکا کا ساتھ دیا۔ ہزاروں افراد ہلاک ہوئے۔ اربوں ڈالرز کا نقصان ہوا اور امریکا نے ہم پر بھارت کو ترجیح دی۔”
ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت بھی نہیں چاہتی کہ پاکستان کسی تنازعے کا حصہ بنے اور فوج بھی تنازعے کا حصہ بننا نہیں چاہتی۔ “لیکن اگر پھر بھی پاکستان پر دباؤ ڈالا جائے تو حکومت پارلیمنٹ جا سکتی ہے اور پارلیمنٹ کبھی بھی ملک کو جنگ کا حصہ بننے نہیں دے گی۔ ہم نے یمن کے مسئلے پر بھی سعودی عرب کو نو کہا تھا اور اب بھی ہم نو کہہ سکتے ہیں۔”
معروف سیاست دان سینیٹر حاصل بزنجو کے خیال میں بھی حکومت کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگا کہ وہ کسی ایک فریق کا ساتھ دے۔ “ملک میں ایک بڑی تعداد شیعہ مسلمانوں کی ہے، جو فوج، بیورکریسی اور سیاسی جماعتوں میں بھی موجود ہیں۔ اگر ہم اس تنازعے کا حصہ بنتے ہیں تو ملک میں فرقہ وارانہ آگ بھڑک اٹھے گی اور پاکستان کے طاقتور حلقے بھی اس بات کو سمجھتے ہیں۔ اس لیے آسلام آباد اس تنازعے کا حصہ نہیں بنے گا۔”
لیکن کئی ماہرین کا خیال ہے کہ پاکستان کے معاشی مسائل دن بہ دن بڑھتے جارہے ہیں اور ایسی صورت میں ملک امریکا اور سعودی عرب کو ناراض نہیں کر سکتا ہے۔ نیشنل یونیورسٹی برائے سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے عالمی ادارہ برائے امن و استحکام سے وابستہ ڈاکٹر بکر نجم الدین کا خیال ہے غیر جانبداری پاکستان کے لیے بہترین ہے لیکن پاکستان کے لیے ایسا کرنا بہت مشکل ہے۔ “اسلام آباد کو آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی مالیاتی اداروں سے پیسہ چاہیے، جہاں امریکا کا سکہ چلتا ہے۔ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بھی آپکی مالی طور پر مدد کی ہے اور مزید مدد کرنا چاہتے ہیں۔ آپ کا سب سے زیادہ زرمبادلہ ان کارکنان کی طرف سے آتا ہے، جو خلیجی ممالک میں کام کرتے ہیں۔ اس میں سے لاکھوں سعودی عرب اور یو اے ای میں کام کرتے ہیں۔ تو ایسی صورت میں آپ غیر جانبدار کیسے رہ سکتے ہیں۔”
پاکستان کے شیعہ، جو کل آبادی کا بیس فیصد کے قریب بنتے ہیں، حکومتی دعوؤں پر شک و شبے کا اظہار کر رہے ہیں۔ شیعہ تنظیم پاسبان عزا کے صدر راشد رضوی کا خیال ہے کہ پاکستان پہلے ہی جانبدار ہے اور کسی تصادم کی صورت میں امریکا اسلام آباد سے لوجسٹکس بھی مانگے گا اور فضائی اڈے بھی مانگے گا۔ “سیدھی سی بات ہے کہ پاکستان کو پیسے کی ضرورت ہے اور وہ پیسہ سعودی عرب اور امریکا دے رہا ہے۔ اس کے علاوہ سلیمانی کی شہادت کے فوراً بعد امریکا نے پاکستان کی فوجی تربیت کا پروگرام شروع کردیا جب کہ نہ ہی وزیر اعظم نے اور نہ کسی اور حکومتی ذمہ دار نے سلیمانی کی ہلاکت کی مذمت کی۔ تو اس سے یہ بات واضح ہے کہ پاکستان کا جھکاؤ سعودی عرب اور امریکا کی طرف ہے اور کسی تنازعے کی صورت میں وہ یقیناً ان ہی ممالک کا ساتھ دے گا۔”
انہوں نے خبر دار کیا کہ اگر پاکستان نے ایسا کیا تو یہ ملک کی سماجی یکجہتی کے لیے بہت برا ہوگا۔ “میرے خیال میں اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے اور پاکستان جانبداری دکھاتا ہے تو شیعہ نوجوان عسکریت پسندی کی طرف مائل ہو جائیں گے۔ اگر وہ شام میں مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے لڑنے گئے تھے تو ایران میں مشہد اور قم سمیت کئی مقامات مقدسہ کے لیے کیوں نہیں لڑیں گے۔”
ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی شیعہ جنرل سلیمانی کی اس لیے عزت نہیں کرتے تھے کہ وہ ایرانی تھے۔ “بلکہ پاکستان میں شیعہ کمیونٹی کا خیال یہ ہے کہ انہیں اس لیے قتل کیا گیا کہ انہوں نے حضرت زینب کے روضے سمیت کئی مقدس مقامات کی حفاظت کی، جو ان کا شیعہ کمیونٹی پر ایک بہت بڑا احسان ہے۔”
پاکستان کی شیعہ آبادی قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر پہلے ہی سراپا احتجاج ہے۔ کل بروز اتوار ملک کے پندرہ شہروں میں شیعہ تنظیموں نے مظاہرے کیے جس میں امریکا کے خلاف بھر پور نعرے بازی کی گئی۔ ڈی ڈبلیو کو کئی شیعہ تنظیموں نے بتایا کہ وہ آنے والے دنوں میں مزید احتجاجی پروگراموں کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ ملک کی شیعہ آبادی اس بات پر بھی چراغ پا ہے کہ پاکستان نے اس قتل کی اور امریکی اقدام کی مذمت کیوں نہیں کی۔ مجلس وحدت المسلیمین کے رہنما ناصر شیرازی کا کہنا ہے کہ پاکستان کو فوری طور پر واضح الفاظ میں اس امریکی اقدام کی مذمت کرنی چاہیے۔ “کیونکہ یہ اقدام غیر قانونی ہے اور تمام بین الاقوامی قوانین اور اصولوں کے خلاف ہے۔”
قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر فرحان حنیف صدیقی کا کہنا ہے کہ پاکستان کی شیعہ کمیونٹی بہت مذہبی ہے اور اپنے عقائد کے حوالے سے بہت حساس ہے۔ “پاکستانی شیعہ پہلے بھی داعش کے خلاف لڑنے کے لیے شام اور عراق گئے تھے اور اگر ایران پر حملہ ہوتا ہے تو یقینًا بہت سارے شیعہ نوجوان، خصوصًا پارہ چناراور گللت سے، امریکا کے خلاف لڑنے کے لیے جائیں گے۔”