اکتوبر ١٨٩٨ ئ،وفات :٥ دسمبر ١٩٥٨ئ) کا نام ذہن میں آتے ہی لاشعوری طور پر لبوں پر مسکراہٹ چھا جاتی ہے۔اس کی وجہ ان کی تصنیف ”پطرس کے مضامین”ہے۔گیارہ مضامین پر مشتمل یہ مختصر سی کتاب اردو ادب کے مزاحیہ سرمائے میں اپنی منفرد پہچان سے اعلیٰ مرتبے پر فائز ہے۔اسی کتاب سے پطرس بخاری کو اردو ادب میں طنز و مزاح کے سب سے بڑے علمبردار ہونے کا شرف حاصل ہوا ہے۔
پطرس بخاری کے متعلق مختلف جامعات،ادبی محفلوں اور سیمیناروں میں ”پطرس کے مضامین”کو سامنے رکھ کربحث کی جاتی ہے۔جس کی وجہ سے مذکورہ کتاب کی اہمیت میںمسلسل اضافہ ہوتا رہتاہے مگر ادبی پیرائے میں اس کا ایک منفی پہلو بھی اجاگر ہوا۔وہ یہ کہ نئی پود پطرس بخاری کے دیگر ادبی کارناموں سے بے خبرہوتی چلی گئی۔ان میں سے بیشتر کے علم میں نہیں ہوگا کہ موصوف انگریزی، فارسی، پشتواورفرانسیسی ادبیات کے ماہر ہونے کے ساتھ اردو ادب کے ایک معروف نقاد،براڈ کاسٹر،مقرر،مترجم،سفرنامہ نگار،ڈراما نگار اور شاعر بھی تھے۔ زیرِ نظر مضمون کو طوالت سے بچانے کے لیے محض پطرس بخاری کی شاعری کو مدنظر رکھا گیا ہے۔ان کو شاعرانہ ذوق وراثت میں ملا۔ان کے والد سید اسداللہ شاہ خود اشعار کہنے کے ساتھ پشاور کے مشاعروں کی صدارت فرماتے تھے۔یہی خاصیت پطرس میں بھی تھی۔وہ بھی مختلف ادبی محفلوں اورمشاعروں کی صدارت کے فرائض سرانجام دے چکے ہیں۔ پطرس بخاری بھائیوں میں تیسرے نمبر پرتھے۔بڑے بھائی سید غالب شاہ کے بعد سید محمد شاہ،پھر احمد شاہ(پطرس) اور آخر میں ذوالفقار علی بخاری پیدا ہوئے تھے۔ایک بڑی بہن بھی تھیں۔بہن بھائیوں میں سید محمد شاہ بھی شاعری سے لگائو رکھتے اور ”رفعت” تخلص رکھتے۔پطرس نے ان کا اثر بھی قبول کیا۔اس کے ساتھ پطرس بخاری کی اٹھک بیٹھک ہندوستان کے نامور شعرا ء و ادبا ء کے ساتھ تھی۔جن کی صحبت آپ کو شاعری کی جانب گامزن کرگئی۔ان میں عبدالمجید سالک،صوفی تبسم،احمد ندیم قاسمی،غلام رسول مہر،علامہ اقبال، امتیاز علی تاج اورہاجرہ مسروروغیرہ کے نام اہم ہیں۔پطرس اور اقبال کے آپس میں دوستانہ روابط تھے جس کا ایک ثبوت یہ ہے کہ علامہ اقبال نے پطرس بخاری پر ایک نظم ”ایک فلسفہ زدہ سید زادے کے نام” بھی لکھی ہے جو ”ضربِ کلیم” میں شامل ہے۔ پطرس بخاری کی شاعری محض تفریح طبع کے لیے ہے ۔اس صنف کی جانب ان کی توجہ کم رہی۔اس لیے ان کے بہت کم اشعار دستیاب ہیں۔ان میں نظمیں اور غزلیں شامل ہیں جن میںبچوں کے لیے بھی نظمیں موجود ہیں۔پطرس بخاری نے اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں اشعار کہے ہیں۔ایک فارسی غزل میں ”بخاری”تخلص استعمال کیا ہے۔ قارئین کی دلچسپی کا ساماں کرتے ہوئے یہاں پطرس بخاری کے اردو اور فارسی کے چندنمایاں اشعار درج کیے جارہے ہیں: میں نے کہہ تو دیا تجھ سے عشق ہے مجھ کو ترا ہی در میری آوارگی کا محور ہے ترا ہی حسن ہے فطرت کا آخری شاہکار کہ جو ادا ہے وہ تیری ادا سے کمتر ہے شبِ وصال کے اس مخملیں اندھیرے میں مری تلاش میں فردا کی روشنی بھی ہے مجھے تو آکے ملی وقت کے دوراہے پر کہ صبح زیست بھی ہے موت کی گھڑی بھی ہے جو تو کہے تو کسی میکدے میں چل بیٹھیں جو دل کی بات ہے دل میں وہ دل کی بات کریں میں خم کے سائے میں سرگوشیاں کروں ایسی کہ تیرے لب مری ہر بات کو نبات کریں ایک قطعہ ہے کہ: اٹھ گیا اپنے یہاں سے ٹیلی فون اب کہیں جاکر ملے گا اگلی جون اس کے ہونے سے رہا کرتی تھی چخ یہ چمن یونہی رہے گااور۔۔۔الخ اسی طرح بچوں کے لیے ایک نظم ” دہلی کی سیر”میں کہتے ہیں کہ : ایک چھوٹا سا لڑکا الٰہ آباد کا اپنے گھر سے چلا اور دہلی گیا واں جو پہنچا تو دیکھا کہ اس جا کے لڑکے ہیں ویسے ہی ننھے اور اس جا کے گنے ہیں ویسے ہی لمبے اور اس جا کی برفی ہے ویسی ہی میٹھی اور اس جا کی بلی ہے ویسی ہی موٹی اور اس جا کی چڑیاں ہیں ویسی ہی چھوٹی اور اس جا کی چالیس ہیں بیس اور بیس اس نے یہ کچھ جو دیکھا تو حیراں ہوا اور تکتا رہا اور تکتا رہا اور حیراں ہوا پطرس بخاری کے چند فارسی اشعار ملاحظہ ہوں: اے حسن تو زیادہ تماشہ کنم ترا عمرم دراز بادِ تمنا کنم ترا برہم نظر مکن منِ ناکردہ کار را گر التجائے بوسئہ بے جا کنم ترا بہ تبسم چہ تسلی بہ نگاہے چہ قرار لشکر آرزوئے از لبم انگیختہ نگاہِ دزدیدہ افگندی بدل چوں راز جاں دارم نظر کردی بہ بے باکی و فصل داستانمم شد مگر آوارگی آرد سوئے منزل بخاری را کہ از گمراہی خود ہم زراہِ گمر ہاں گم شد